بانی اکیڈمی

<b>بانی اکیڈمی</b>

بانی اکیڈمیIFA Academy, 15-06-2000

قاضی مجاہد الاسلام قاسمی

 

روئے زمین پرکچھ ایسی انقلابی ہستیاں ہوتی ہیں جن کی حیات انسانیت کے لیے رحمت وسعادت کی نشانی ہوتی ہے،جن سے علوم ومعارف کے چشمے پھوٹتے ہیں اورصدیوں تک طالبان وعاشقان علم اپنی پیاس بجھانے کے لیے ان کی فکروفہم سے مستفید ہوتے رہتے ہیں،یوں یہ سلسلہ جاری رہتاہے، دراصل یہ حضرات ایسے نقوش ثبت کرجاتے ہیں کہ ان کوفراموش کرناآسان نہیں رہتا، ایسے تابناک ستاروں کوتاریخی اوراق محونہیں ہونے دیتے،  یوں دین حق کے سرفروش اپنے اپنے حالات واحوال کے مطابق مختلف میدانوں میں نمایاں خدمات سرانجام دیتے رہے ہیں، انہیں ہستیوں میں ایک نام قاضی مجاہدالاسلام قاسمیؒ ہے، جنہوں نے فقہی میدان میں عظیم خدمات ہیں، آپؒ ماہرفقیہ اورامورقضاء میں درک رکھتے تھے، ذیل میں قاضی مجاہدالاسلام قاسمیؒ کی شخصیت وحالات کامختصرتعارف پیش کیاجاتاہے:

قاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒ کی پیدائش 1355ھ بمطابق 1936ء میں ہندوستان کی سر زمین جالے ضلع دربھنگہ کے معروف خاندان میں ہوئی،  آپؒ کے والد مولانا عبد الاحد قاسمی جید عالم دین، خطیب اور مناظر تھے، اور شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ کے اولین شاگردوں میں سے تھے،  1390/1901ء میں انہوں نے دیوبند سے امتیازی نمبرات کے ساتھ کامیابی حاصل کی۔ بعد ازاں درس وتدریس میں مشغول ہوئے اور طویل مدت تک بہار میں مدرسہ احمدیہ مدھوبنی میں بطور شیخ الحدیث اپنی خدمات انجام دیتے رہے۔

قاضی صاحبؒ کی پیدائش علمی ودینی گھرانے میں ہوئی، علم وفہم رکھنے والے والد کے زیر سایہ پرورش پانے سے آپؒ میں حسن ونکھار، فقہی بصیرت وعلمی ذوق پیدا ہوا، جس کے اثرات آپؒ کی شخصیت وکردار میں نمایاں طور پر نظر آتے ہیں۔

تعلیم وتربیت

حضرت قاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒ نے دارالعلوم مؤناتھ بھنجن یوپی میں متوسط وثانوی تعلیم کے مراحل طے کیے، 1951ء1370ھ سے 1955ء  1374ھ تک دارالعلوم دیوبند میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی، مولانا سید حسین احمد مدنیؒ سے آپ نے بخاری، علامہ محمد ابراہیم بلیاویؒ سے مسلم، مولانا اعزاز علیؒ سے ترمذی پڑھی، آپؒ نے علامہ مولانا عبدالحفیظ بلیاویؒ، مولانا محمد حسین بہاریؒ، مولانا فخر الحسن مرادآبادیؒ، مولانا بشیر احمد خانؒ، مولانا نصیر احمد خانؒ اور مولانا معراج الحقؒ سے مختلف علوم وفنون کی کتابیں پڑھیں، تحریر وقلم کے معاملہ میں آپ کے خاص مربی مولانا سید منا ظراحسن گیلانیؒ تھے۔

قاضی صاحبؒ نے اپنے وقت کے ممتازعلمائے دین سے زانوائے تلمذ تہ کیااورعلوم اسلامیہ میں دسترس ودرک حاصل کیا،جس کااظہارآپؒ کی تقریروتحریرمیں ملتاہے، آپؒ علوم دینیہ میں یدطولیٰ رکھتے تھے۔

تدریسی خدمات:

قاضی صاحبؒ درس وتدریس کے مقدس فرض کے ساتھ تاحیات جڑے رہے اورمتعددموضوعات پرخطبات ودروس دیتے رہے، لیکن آپؒ نے تدریس کے شعبہ کوباقاعدہ طورپربھی اپنایا، دیوبندسے فراغت کے بعدحضرت مولاناحسین احمدمدنیؒ کے ایماء پرقاضی صاحبؒ جامعہ رحمانی مونگیرتشریف لے گئے، یہاں آپؒ نے مجموعی طورپرآٹھ سال تدریسی خدمت انجام دی، آپؒ نے عربی کی ابتدائی کتابوں سے لے کرمنتہی کتابوں تک کادرس دیااورابوداودوغیرہ کے اسباق آپؒ کے ذمہ رہے۔

تعمیری وتنظیمی خدمات:

آپؒ کی ملی وتنظیمی خدمات بے شمارہیں،چنداہم خدمات کودرج ذیل نکات کی صورت میں پیش کیا جاتاہے:

٭       یکم شوال1384ھ کومولاناسیدمنت اللہ رحمانی کی خواہش پرامارت شرعیہ کی نظامت اورقضاکاعہدہ قبول کرتے ہوئے پھلواری شریف پٹنہ تشریف فرماہوئے، یہاں آپؒ نے تین حیثیتوں سے کام کیا:

1-    1962ء تا1965ء بہ حیثیت ناظم

2-    1962ء تاوفات قاضی شریعت وقاضی القضاۃ

3-    12ربیع الاول1420ھ مطابق 24جون 1990ء تاوفات نائب امیر شریعت

٭       حضرت مولانا سیدمنت اللہ رحمانیؒ کی تحریک پر حضرت قاری محمدطیب صاحبؒ کے ذریعے 1972ء میں آل انڈیامسلم پرسنل لاء بورڈقائم ہوا،جس کے تانے بانے کے بننے میں قاضی مجاہدالاسلام قاسمیؒ شروع سے شریک رہے اوردارالعلوم دیوبندمیں منعقدہ اس کے اولیں اجلاس کی تیاری کے لیے ایک ماہ دارالعلوم میں قیام کیا، 22اپریل 2000ء کو قاضی صاحبؒ کومولاناعلی میاں ندویؒ کے انتقال کے بعدصدربورڈ منتخب کیاگیا، تین سال سے بھی کم عرصے تک آپؒ بورڈ کے صدررہے، کیوں کہ عمرنے وفانہیں کی۔

٭       آپؒ کی تحریک پربہارمیں مولاناسجادہاسپٹل قائم کرنے کامنصوبہ بنااورقاضی صاحبؒ نے اپنے رفقاء کے تعاون سے اس کام کوعملی جامہ پہنایا۔

٭       پھلواری شریف میں مولانامنت اللہ رحمانی ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ کے قیام کے لیے مطلوبہ مالی وافرادی وسائل کی فراہمی قاضی صاحبؒ کی رہین منت ہے، مزیدبرآں تأسیس جالہ ایجوکیشنل کیمپ کاسہرابھی آپ کے سرہے۔

٭       مئی 1992ء میں آپؒ نے آل انڈیاملی کونسل بمبئی کے اجلاس منعقدہ 23۔24 مئی 1992ء کو کونسل کی اساس گزاری کی۔

٭       آپ نے نوجوان فضلاء کی علمی تربیت کے لئے  المعھد العالی للتدریب فی القضاء والافتاء یسا اہم ترین ادارہ کی تشکیل کی، جوافرادسازی اور تحقیق و تالیف کی قابل قدرخدمات انجام دے رہا ہے۔

٭       آپ کی زندگی کا سب سے نمایاں اور عظیم الشان کارنامہ اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کی تاسیس ہے، اس ادارہ نے قلیل مدت میں وسط ایشیا میں اپنی علمی شناخت قائم کرلی اور علماء و فقہاء کے اندر تحقیق و تالیف اور بحث و مناقشہ کا جذبہ پیدا کردیا، اور دیکھتے ہی دیکھتے ملک میں فقہی بحث و مناقشہ کا انقلاب پیدا ہوگیا، ملک کے نہایت باوقار اور مقتدر شخصیتوں کا علمی و تحقیق اجتماع منعقد ہونے لگا، جس نے حضرت امام ابو حنیفہؒ کی مجلس کی یاد تازہ کردی، آج اس ادارہ کو عالم اسلام میں ایک معتبر علمی و فقہی ادارہ تسلیم کیا جاتا ہے۔

٭       آپ نے ملک وبیرون ملک کئی اہم مناصب پراپنی ذمہ داریوں کوبخوبی انجام دیااورامت کی رہنمائی کرتے رہے، جن میں درج ذیل اہم عہدہ جات شامل ہیں:

٭       رکن اسلامک فقہ اکیڈمی مکہ مکرمہ،اکسپرٹ ممبرانٹرنیشنل اسلامک فقہ اکیڈمی جدہ،رکن المجمع العلمی العالمی دمشق، رکن اعزازی الھیئة الخیریۃ الاسلامیۃ العالمیۃ کویت، رکن شرعیہ بورڈ آف الامین اسلامک فائنانشیل فاؤنڈیشن بنگلور، رکن گورننگ باڈی آف انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز۔

٭       قاضی مجاہدؒ کی ہمہ جہت شخصیت نے نہ صرف علمی وفکری میدان میں امت کی رہنمائی کی بنیادیں فراہم کیں،بلکہ دیگرفلاحی وتعمیری کاموں مثلاًاسپتال وٹیکنیکل ادارہ کے قیام کے ذریعہ خدمت خلق میں بھی اپناکرداراداکیا۔

تصنیف و تالیف:

حضرت قاضی صاحب کی خدمات ہمہ جہت تھیں، چنانچہ آپ نے جہاں دیگر میدان میں نمایاں خدمات انجام دی ہیں، وہیں تصنیف کے میدان میں بھی قابل رشک خدمات انجام دیں، آپ کے قلم گوہر بار سے دسیوں کتابیں وجود میں آئیں، جن میں نمایاں کتابیں مندرجہ ذیل ہیں: (۱) اسلامی عدالت (۲) صنوان القضا و عنوان الافتاء (تحقیق) (۳) نئے اور جدید موضوعات پر دسیوں علمی مجلات (۴) نظام القضاء الاسلامی۔

اعزازات وایوارڈز

قاضی صاحب کی نمایاں خدمات کی وجہ سے آپؒ کوکئی ایوارڈدیے گئے۔ذیل میں چنداعزازات کے نام بیان کیے جاتے ہیں:

٭       الامین ایجوکیشنل ٹرسٹ کی جانب سے کمیونٹی لیڈر شپ ایوارڈدیاگیا۔

٭       انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیزنئی دہلی کی طرف سے شاہ ولی اللہ ایوارڈپیش کیاگیا۔

٭       ’افمی‘یعنی امریکن فیڈریشن آف مسلم کی طرف سے مولانا سیدابوالحسن علی ندوی ایوارڈملا۔

٭       احکام شریعت اسلامی کی تطبیق کے لیے قائم حکومت کویت کی اعلیٰ مشاورتی کمیٹی کی طرف سے فقہی ایوارڈدیاگیا۔

٭       ’میسی‘ یعنی مسلم ایجوکیشنل ایسوسی ایشن آف ساؤتھ انڈیاکی جانب سے بہترین اسلامی شخصیت ایوارڈکا حق دار ٹھہرایا گیا۔

٭       حکومت مراکش کی طرف سے بہترین اسلامی اور علمی خدمت پر گولڈ میڈل دیا گیا، جو اس دن اکیڈمی کے دفتر کو موصول ہوا جس دن قاضی صاحب ی وفات ہوئی۔

اسفار

قاضی صاحب نے کئی ممالک کا سفر کیا۔ جس میں سعودی عرب، عرب امارات، قطر، بحرین، کویت، امریکہ، برطانیہ، پاکستان، بنگلہ دیش، ایران، روس کی آزاد مسلم جمہوریاستیں، مراکش اور جنوبی افریقہ شامل ہیں۔ آپ نے دوحج کیے۔پہلا حج 1969ء میں اوردوسراسفرحج 1996ء میں کیا۔

وفات

جمعرات 20محرم1423ھ مطابق 4اپریل2002ء کودہلی اپولواسپتال میں سات بج کرپانچ منٹ پرجان،جان آفریں کے سپرد کردی۔  اناللہ واناالیہ راجعون۔

VIEW DETAILS