تعارف اُردو

قیام اور اس کا پس منظر

 

کوئی بھی فقہ یا قانون اپنی حرکیت سے ہی زندہ رہتا ہے، زندگی کی حرارت اور حرکت کسی بھی زندہ قانون میں نمایاں ہوتی ہے، بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ قانون کی تطبیق بہت نازک اور ذمہ داری کا کام ہے، فقہ اسلامی کی پائیداری اور حالات اور زمانہ کی تبدیلیوں کے باوجود انسانی زندگی میں انضباط پیدا کرنے اور صحیح رہنمائی دینے کی بھرپور صلاحیت دراصل ان اصولی احکام کی رہین منت ہے، جنہیں فقہاء نے کتاب و سنت سے مستنبط کیا ہے اور ہر عہد میں اس عہد کے حالات کو سامنے رکھ کر احکام فقہیہ کی تطبیق کا نازک فریضہ انجام دیا ہے۔

ایک زمانہ تھا جب ایسی جامع شخصیتیں موجود تھیں جو کتاب و سنت ، فقہاء کے اجتماعی اقوال، قیاس کے اصول و مبادی اور استنباط کے طریقوں پر حاوی تھیں، شریعت کے عمومی مصالح اور قانون شریعت کے اغراض و مقاصد پر ان کی نگاہ تھی اور وہ زمانہ شناس بھی تھے، لہذا انہوں نے اپنے عہد میں اپنی صلاحیتوں کا استعمال کیااور ورع و تقوی کے ساتھ مقاصد شرع اور قوانین دین پر مضبوط گرفت رکھتے ہوئے اپنے وقت کی مشکلات کا حل نکالا، ان اصحاب افتاء بزرگوں کا فتوی سکہ ٔ رائج الوقت کی طرح مسلم معاشرہ میں قبول عام اختیار کرتا رہا۔

موجودہ حالات یہ ہیں کہ معاشرے میں انقلابی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں، سائنس و ٹکنالوجی کی ترقی نے نئے افق پیدا کئے ہیں، دنیا ایک چھوٹی سی بستی بن گئی ہے ، معاشی اور اقتصادی امور میں نئی ترقیات نے نئے مسائل کھڑے کئے ہیں ،جو لوگ اسلام پر چلنا چاہتے ہیں اور شریعت کو اپنی معاشرت، تجارت اور زندگی کے دوسرے میدانوں میں معیار ہدایت قرار دے کر زندگی گزارنا چاہتے ہیں، ان کے ذہن میںایسے سیکڑوں سوالات پیدا ہورہے ہیں، جن کے بارے میں وہ علماء و اصحاب افتاء کی طرف رجوع کرتے ہیں اور رہنمائی کے طالب  ہوتے ہیں۔دوسری طرف ایسی جامع شخصیتوں کا فقدان ہوگیا جو علم و تحقیق کی بنیاد پر ان مسائل کو حل کرسکیں اورجن کا تنہا فتوی بھی مسلم معاشرہ میں قابل قبول ہو۔

اس لئے ضرورت تھی کہ اجتماعی غور وفکر کی بنیاد ڈالی جائے اور علماء و اصحاب دانش باہمی تبادلہ خیال کے ذریعہ ان مسائل کا ایسا حل نکالیں جو اصول شرع سے ہم آہنگ ہو۔اس اجتماعی غور و فکر کی مثالیں ہمیں عہد صحابہ میں اور اس کے بعد بھی ملتی ہیں،یہی وہ مقصد تھا جس کے لئے ‘‘اسلامک فقہ اکیڈمی(انڈیا)’’ کی تشکیل عمل میں آئی، جس میں ایک طرف حکم شرعی کی تطبیق کے لئے محقق علماء اور ارباب افتاء کی تحقیق سے فائدہ اٹھایاجا تا ہے اور دوسری طرف صورت مسئلہ کی توضیح و تشریح کے سلسلہ میں جدید علوم کے ماہرین کی معلومات سے بھی حسب ضرورت استفادہ کیاجاتا ہے،خوشی کی بات یہ ہے کہ اکیڈمی کے فیصلوں کی روح شریعت سے ہم آہنگی، توازن واعتدال اور مسلک دیوبند و جمہور فقہاء کی طرف استناد کی وجہ سے اب اس علمی اور تحقیقی عمل کی آواز بازگشت سنی جانے لگی ہے۔

اغراض و مقاصد

اسلامک فقہ اکیڈمی کے حسب ذیل اغراض ومقاصد ہیں:

۱۔       موجودہ دور کی معاشی، معاشرتی، سیاسی و صنعتی تبدیلیوں اور جدید ترقیات کے نتیجے میں پیدا ہونے والی دشواریوں کا اسلامی خطوط کے مطابق قرآن و سنت، آثار صحابہ اور ائمہ مجتہدین وسلف صالحین کی تشریحات کی روشنی میں حل تلاش کرنا۔

۲۔      جدید عہد میں پیدا ہونے والے مسائل یا ایسے مسائل جو بدلتے ہوئے حالات میں بحث و تحقیق کے متقاضی ہیں فقہ اسلامی کے اصول کی روشنی  میں اجتماعی تحقیق کے ذریعہ ان کا حل تلاش کرنا۔

۳۔      مصادر فقہ، قواعد و کلیات اور فقہی نظریات کی تشریح و توضیح اور اس عہد میں اس کی تطبیق کے موضوع پر تحقیق کرنا۔

۴۔      عصری تقاضوں کی روشنی میں فقہی موضوعات پر تحقیق و ریسرچ کرنا۔

۵۔      جدید پیش آمدہ مسائل میں محقق علماء اور مستند دینی اداروں سے ذمہ دارانہ تحریریں اور فتاوی حاصل کرکے عام مسلمانوں کو باخبر کرنا۔

۶۔      ملک و بیرون ملک کے تمام فقہی و تحقیقی اداروں سے رابطہ قائم کرنا، باہم ایک دوسرے کی علمی کاوشوں سے باخبر رہنا اور ان سے استفادہ کرنا۔

۷۔      مختلف فقہی موضوعات پر کئے گئے کاموں کا انڈکس تیار کرنا۔

۸۔      ملک کے مستند اداروں اور اشخاص کی طرف سے جاری ہونے والے وہ فتاوی وتحقیقات جن کی حیثیت علمی اور فقہی ورثے کی ہے، ایسے مطبوعہ اور غیر مطبوعہ فتاوے وتحقیقات کا انتخاب، اور ان کو عصری اسلوب میں مرتب کر کے پیش کرنا۔

۹۔       موجودہ اقتصادی، سماجی،طبی نیز مختلف ممالک اور علاقوں کے عرف و رواج، ماحولیات اور عمرانیات کے میدان میں ملک و بیرون ملک میں پیدا  ہونے والی دشواریوں اور ان موضوعات پر کی گئی تحقیقات کے نتائج سے واقف کرانا۔

۱۰۔     قوانین شرع اسلامی کے بارے میں مختلف حلقوں کی طرف سے پیدا کی جانے والی غلط فہمیوں اور غلط تعبیرات کا جائزہ، اور ان کے بارے میں صحیح نقطہ نظر پیش کرنا۔

۱۱۔      جدید سوالات اور اسلام کو درپیش چیلنج کے حل پر مشتمل ایسا لٹریچر تیار کرنا جو عصری اسلوب سے ہم آہنگ ہو ۔

۱۲۔     نئے با صلاحیت علماء کی صلاحیت کو علمی وتحقیقی رخ دینا، ان کی حوصلہ افزائی کر کے علم و تحقیق کا ماحول سازگار بنانا، اور پختہ علمی و تحقیقی ذوق رکھنے والے علماء اور اہل دانش کو باہم مربوط کرنے کی کوشش کرنا۔

۱۳۔     مدارس اسلامیہ سے فارغ ہونے والے ذہین اور باصلاحیت فضلاء کو ضروری عصری علوم میں،اور یونیورسٹیز سے فارغ ہونے والے ذہین اورباصلاحیت افراد کو دینی اور فقہی علوم میں مناسب معلومات فراہم کرنے کے لئے ضروری انتظام کرنا۔

۱۴۔     مختلف مسالک کے علمی وفقہی ذخیرہ سے استفادہ کا رجحان پیدا کرنا۔

۱۵۔     مندرجہ بالا اغراض و مقاصد کے تحت سمینار و سمپوزیم منعقد کرنا، اسٹڈی ٹیم بنانا،تربیتی وفقہی کیمپ منعقد کرنا اور علمی ، تعلیمی  وتحقیقی ادارے قائم کرنا، نیز اپنے وسائل کے مطابق تمام وہ کام کرنا جو ان اغراض و مقاصد کے حصول کے لئے مفید اور مناسب ہوں۔