فقہی سمنار اور اس کا طریقہ کار

فقہی سمینار اور اس کا طریقہ کار

 

اکیڈمی کا نئے مسائل پر غور و فکر کرنے کاایک امتیازی نہج  ہے اور تحقیق کے کئی مراحل سے گزرنے کے بعدفیصلے کئے جاتے ہیں، اس سلسلہ میں سب سے پہلا مرحلہ سمینار کے لئے زیر بحث آنے والے  موضوعات کے انتخاب کاہوتا ہے، اس کے لئے سمینار میں شریک ہونے والے حضرات سے آئندہ سمینار کے موضوعات کے لئے تحریری رائے لی جاتی ہے، اب تک مختلف سمیناروں میں جو آراء آئی ہیں، ان کی مکمل فہرست مرتب کر دی گئی ہے، آرا ء کو سامنے رکھ کر اور عالمی اور ملکی حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے آئندہ سمینار کے لئے موضوعات کا انتخاب کیا جاتا ہے، کوشش کی جاتی ہے کہ یہ موضوعات مختلف شعبہ ہائے زندگی سے متعلق ہوں اور موجودہ حالات وضروریات سے زیادہ مطابقت رکھنے والے ہوں۔

اب ا س موضوع سے متعلق قابل بحث نکات پر مشتمل سوالنامہ اکیڈمی کے سکریٹریز میں سے کوئی ایک مرتب کرتا ہے، پھر جنرل سکریٹری اس سوالنامہ کو مزید منقح اور واضح کرنے کی کوشش کرتا ہے، سوالنامہ کی تیاری میں جدید علوم کے ماہرین سے بھی ‘‘حسب ضرورت’’ معلومات کے حصول کے لئے تبادلہ خیال کیاجاتا ہے،پھر یہ سوالنامہ ملک کے فقہاء و ارباب افتاء کے پاس بھیجاجاتا ہے ،اور اگر سوال کا تعلق کسی سائنسی ایجاد، یا سماجی و معاشی مسئلہ سے ہو تو اس کے علمی اور سائنسی پہلو پر ان شعبوں کے ماہرین سے مقالات لکھوائے جاتے ہیں اور یہ مقالات اگر انگریزی میں ہوں تو ان  کا اردو ترجمہ کرایاجاتا ہے اوریہ بھی علماء و ارباب افتاء کے پاس بھیجا جاتا ہے ، تاکہ صورت مسئلہ پوری طرح واضح ہوجائے اور وہ اس کی تفصیلات سے واقف  ہوجائیں، ہندوستان میں تمام مکاتب فکر سے متعلق اہم درس گاہوں کے ارباب افتاء، نیز ان تمام شخصیتوں کے نام فقہی سمینار کا دعوت نامہ بھیجاجاتا ہے، جو تصنیف و تالیف، تدریس و قضاء یا کسی اور جہت سے فقہ سے مربوط ہوں۔

اہل علم کی طرف سے جو فقہی مقالات آتے  ہیں، ان کی بڑی تعداد ہوتی ہے،  اکیڈمی  ان مقالات کی اس طرح تلخیص کرتی ہے کہ ہر مسئلہ میں تمام مقالہ نگاروں کی رائے آجائے، اگر اتفاق ہو تو متفقہ رائے پیش کی جاتی ہے،اور اختلاف ہو تو اختلاف رائے کا اظہار کیاجاتا ہے،  مقالہ نگاروں نے کتاب و سنت سے جو استدلال اور فقہاء کی عبارتوں سے جو استشہاد کیا ہو، اختصار کے ساتھ اس کا بھی ذکر ہوتا ہے، اس عمل کا باضابطہ آغاز ساتویں سمینار سے ہوا۔

تیار شدہ تلخیص کو شرکاء کے درمیان سمینار کے موقع پر تقسیم کردیاجاتا ہے، تاکہ انہیں بحث کرنے میں سہولت ہو۔

پھر موضوع کے مختلف پہلوؤں کے لئے مقالات کی معنوی کیفیت کو سامنے رکھتے ہوئے مقالہ نگاروں ہی میں سے ‘‘عارض’’ مقرر کیاجاتا ہے، اس پہلو سے متعلق تمام مقالات کی فوٹو کاپی انہیں فراہم کی جاتی ہے، وہ ان مقالات میں پیش کردہ نقاط نظر کو مرتب کرتے ہیں اور جو دلائل آئے ہیں ان کی روشنی میں اپنی ترجیحی رائے کا ذکرکرتے ہیں۔

پھر شرکاء سمینار خود اپنی تحقیق و مطالعہ، مقالات کی تلخیص اور عارض کی بحث کو سامنے رکھتے ہوئے اظہار خیال کرتے ہیں شرکاء کو بحث میں حصہ لینے کی اجازت حاصل ہوتی ہے، اور اس کے لئے وقت بھی دیاجاتا ہے، یہ بحث ریکارڈ کے ذریعہ ٹیپ بھی کی جاتی ہے اور ایک صاحب علم کو اس کام کے لئے متعین کیاجاتا ہے کہ وہ مباحثہ کے دوران آنے والے تمام نکات کو نوٹ کرتے جائیں، اللہ تعالی کا شکر ہے کہ یہ پوری بحث نہایت سنجیدہ اور پرامن  ماحول میں حق اور سچائی کو حاصل کرنے کے جذبہ سے باہمی احترام کی رعایت کے ساتھ ہوتی ہے۔

صورت مسئلہ کو واضح کرنے کے لئے حسب ضرورت عصری علوم کے ماہرین و اساتذہ سے بھی مدد لی جاتی ہے اور اس کے لئے زیر بحث موضوع کی مناسبت سے گاہے بگاہے منتخب ماہرین بھی سمینار میں شریک ہوتے ہیں۔

موضوع سے متعلق ان کی معلومات کی فراہمی، مسائل کی تنقیح اور ان کے بحث و مباحثہ سے شرکاء سمینار کو سہولت اور مدد ملتی ہے، بحث مکمل ہونے کے بعد اس مسئلہ پر تجویز مرتب کرنے کے لئے ایک سب کمیٹی بنادی جاتی ہے، اس کمیٹی کے انتخاب میں اس کا لحاظ رکھاجاتا ہے کہ یا تو انہوں نے اس موضوع پر بہتر مقالہ لکھا ہو یا نمایاں طور پر بحث میں حصہ لیا ہو، یا ان کو فتوی نویسی کا قدیم تجربہ ہو، اگر بحث کے دوران اتفاق رائے نہیں ہوسکا تو کمیٹی میں دونوں آراء کے حامل نمائندہ افراد کو شامل کیاجاتا ہے، کمیٹی مقالات او ر بحث کے دوران آنے والے نکات کو سامنے رکھتے ہوئے جو سفارشات وتجاویز مرتب کرتی ہے اس کو فقہ کے رمز شناس معمر فقہاء کی ایک مختصر جماعت مزید غور وفکر کرکے سنوارتی ہے۔ پھر مزید تبادلہ خیال کے لئے تجویز کو سمینار کے مندوبین کی عمومی مجلس میں پیش کیا جاتا ہے اور بعض اوقات اس مرحلہ میں بھی جزوی ترمیمات کی جاتی ہیں، جس تجویز پر اتفاق ہوتا ہے، اسے متفقہ حیثیت سے ذکر کیاجاتا ہے، جس میں شرکاء کی غالب ترین اکثریت کی ایک رائے ہو اور ایک دو اشخاص کو اختلاف ہو، ان میں پہلی رائے کا بحیثیت تجویز ذکر کرتے ہوئے اختلاف رکھنے والے حضرات کے نام کے اظہار کے ساتھ ان کا نقطہ نظر بھی ذکر کردیاجاتا ہے ،اور اگردونوں نقاط نظر کے حاملین کی مناسب تعداد ہو توتجویزمیں اختلاف رائے کاذکر کرتے ہوئے دونوں نقاط نظر کو مساویانہ حیثیت سے بیان کیاجاتا ہے، اور ہر رائے کے قائلین میں معروف، نمایاں اور اہم شخصیتوں کا بھی ذکر کردیاجاتا ہے، اور جس طرح تجاویز سمینار میں پیش کی جاتی ہیں، بعینہ اسی طرح اسے طبع کیاجاتا ہے۔

یہ اکیڈمی کاوہ محتاط ، منصفانہ اور شورائی ‘‘طریقہ غوروفکر’’ ہے جو احکام شرعیہ کے حل کرنے میں اختیار کیاجاتا ہے۔