پریس ریلیز و اعلانات

<b>دو روزہ قومی ورکشاپ ”قانون کی تعلیم اور فضلاء مدارس“ </b>

دو روزہ قومی ورکشاپ ”قانون کی تعلیم اور فضلاء مدارس“ اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا , 29-30 July 2023

رپورٹ

دو روزہ قومی ورکشاپ

قانون کی تعلیم اور فضلاء مدارس

مورخہ ۲۹-۳۰/جولائی ۲۰۲۳ء

 

افتتاحی نشست:

اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کے زیر اہتمام دوروزہ قومی ورکشاپ بعنوان "قانون کی تعلیم اورفضلاء مدارس" اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا، نئی دہلی کے سمینار ہال میں بروز ہفتہ، صبح دس بجے منعقد ہوا، اس ورکشاپ کی افتتاحی اور اختتامی نشست کے علاوہ کل چھ نشستیں ہوئیں۔

افتتاحی نشست کی صدارت آل انڈیامسلم پرسنل لاء بورڈ کے صدر اور اسلامک فقہ اکیڈمی کے جنرل سکریٹری حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب نے فرمائی، حضرت مولانا عتیق احمد بستوی صاحب سکریٹری اکیڈمی نے بطور مہمان ذی وقار شرکت کی، جبکہ مہمان خصوصی کی حیثیت سے سپریم کورٹ آف انڈیا کے سینئر ایڈوکیٹ جناب ایم آر شمشاد صاحب نے شرکت کی۔

مولانا سلمان پٹیل ایڈوکیٹ نے تلاوت قرآن سے اس نشست کا آغاز کیا، اکیڈمی کے رفیق مفتی امتیاز احمد قاسمی نے اس نشست کی نظامت کی اور اس ورکشاپ کے انعقاد کے محرکات کیا تھے اس پر گفتگو کی، اسلامک فقہ اکیڈمی کے شعبہ علمی کے انچارج ڈاکٹر صفدر زبیر ندوی نے مہمانوں کا استقبال کیا اور اکیڈمی کا تعارف پیش کیا، اکیڈمی کے سکریٹری برائے علمی امور حضرت مولانا عتیق احمد بستوی نے افتتاحی خطاب کیا، جس میں اس پروگرام کی اہمیت و نافعیت کا اظہار کیا، انہوں نے یہ بھی کہا کہ علماء کے اس میدان میں قدم رکھنے اور آگے بڑھنے سے معاشرہ پر اچھے اثرات مرتب ہوں گے، جناب ایم آر شمشاد صاحب نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اسلامک فقہ اکیڈمی نے قانون کی اہمیت اورملک کے دستوری ڈھانچے کومدنظررکھتے ہوے مدارس کے فضلاء کو اس سے جوڑنے کی کوشش کی ہے جو بہت اہم اور بروقت قدم ہے، خاص طور سے اس طرح کے پروگرام کی ضرورت اوربڑھ جاتی ہے جب کوئی قانون ملک میں نافذ ہوتاہے اورہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ اس کا غلط استعمال ہوا ہے اور اس سے ناانصافی ہورہی ہے، اس وقت قانون کو پڑھنا اورسمجھنا بہت ضرورہوتاہے، انھوں نے مزید کہا کہ دستور ہند ملک کی ڈائیورسٹی کے اعتبار سے بنایا گیا ہے، ایسا نہیں ہے کہ دستور بناکر اس کو سماج پر چسپاں کر دیا گیا ہو، بلکہ ہندوستانی سماج کے اعتبار سے ہی دستور مرتب کیا گیا ہے اور اس میں سماج کے ہر طبقہ، ہر خطہ، ہر مذہب اور ہر رنگ و نسل کو جگہ دی گئی ہے اور دستور سازی میں اس کا پورا پورا لحاظ رکھا گیا ہے۔

حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب نے اپنے صدارتی خطاب میں فرمایا کہ علم وتحقیق کے میدان میں اس وقت فقہ اکیڈمی جس نوعیت سے کام کررہی ہے، وہ اپنے آپ میں ممتاز حیثیت کی حامل ہے، اکیڈمی کاموضوع فقہ ہے، اورفقہ کامطلب قانون ہے، اس اعتبار سے قانون سے اکیڈمی کا گہراربط ہے، یہ پروگرام اس اعتبار سے رکھاہے کہ پہلے فضلاء مدارس میں ماڈرن لا ء پڑھنے کا رجحان نہیں تھا، مگر اب اس میں مدارس کے بچوں کا رجحان بڑھا ہے، اس اعتبار سے بھی اس کی ضرورت محسوس ہورہی تھی، قانون کے بارے میں صدر محترم نے کہا کہ اسلام کا موقف یہ ہے کہ اللہ ہی کائنات کا خالق ہے اوروہی قانون بنانے کا حق رکھتاہے، اس لئے ہمارے قانون کا اصل محور اللہ کی ذات ہے، انھوں نے کہا کہ ہم جس سماج میں رہتے ہیں اس کے قوانین سے واقف ہونا ہمارے لیے بہت ضروری ہے، اور یہ بھی کہ قانون بنانے والا بھی سماج سے اچھی طرح واقف ہو اور غیر جانبدار ہو، صدر محترم نے کہا کہ قانون کی بنیاد علم و عدل ہے، اوردوسرے مساوات جیسا کہ میثاق مدینہ ہے،  اوریہی کثیر قومی ملک میں ممکن ہے، او رہمارے ملک کا جو قانون ہے وہ اسی مساوات اورعدل کو سامنے رکھ کربنایا گیاہے، گویا دستور ہند ملک میں بسنے والے تمام قوموں کے لیے قدر مشترک ہے، اور اس پر ہندوستانی سماج کا اتفاق بھی ہے اور سبھی کے لیے قابل قبول بھی، بشرطیکہ اسے انصاف کے ساتھ نافذ کیاجائے۔

اس نشست کے اختتام پر اکیڈمی کے رفیق مفتی احمد نادر قاسمی نے صدر مجلس، مہمانان گرامی اور تمام شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔

پہلی نشست:

اس دو روزہ ورکشاپ کی پہلی نشست صبح 11:00 تا 1:00/بجے منعقد ہوئی، اس نشست کا مرکزی موضوع "مذہبی آزادی اور قانونی تحفظات - خالص آئینی مسئلہ" تھا، اس نشست کی صدارت حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب نے فرمائی، جبکہ نظامت کے فرائض مولانا امین اعظمی صاحب نے انجام دیے، اس نشست کے محاضر جناب ایم آر شمشاد صاحب نے "مذہبی آزادی کی قانونی ضمانت" اور "عدالتی نظیر اور بنیادی (ناگزیر) مذہبی رسومات کا تصور" کے موضوع پر اپنا فاضلانہ محاضرہ پیش کیا، انھوں نے کہا کہ مذہبی آزادی کی بات ہے تو یہ ضروری نہیں کہ قانون بنے تبھی آزادی ہوگی، بلکہ کچھ ایسے انسانی اختیارات ہیں جن کا قانون بننے اور نہ بننے سے کچھ فرق نہیں پڑتا ہے، وہ بہت ہی بنیادی اختیارات و حقوق ہیں، قانون بننے اور دستور کے وجود میں آنے سے پہلے بھی لوگ آزادی سے مذہبی رسومات ادا کرتے تھے اور آج بھی آزادی سے کرسکتے ہیں، لیکن مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے کہ ان مذہبی رسومات کی ادائیگی اور پریکٹس میں کچھ ایسی چیزیں ہوتی ہیں جن سے امن عامہ یا عام لوگوں یا ان کے حقوق متاثر ہوتے ہیں، بلکہ بعض دفعہ پورا پورا سسٹم متاثر ہوجاتا ہے، پھر وہ معاملہ کورٹ تک پہنچتا ہے، وہاں لاء اور قانون کی ضرورت پڑتی ہے، اس لئے اس کے ریگولیشن کے لئے قانون کی ضرورت پڑتی ہے، چنانچہ اس سلسلہ میں ریگولیٹری پروویزن بنایا گیا اور اس میں بنیادی طور پر تین چار چیزیں رکھی گئیں، محترم شمشاد صاحب نے اپنی گفتگو میں بہت سی عدالتی نظیریں مختلف ہائی کورٹوں اور سپریم کورٹ کی پیش کیں جو شرکاء کے لئے نہایت دلچسپ رہیں، محاضر محترم نے اپنے محاضرہ میں دستور ہند کے آرٹیکل ۲۵ اور ۲۶ پر تفصیلا روشنی ڈالی، انہوں نے تمام شرکاء کو مشورہ بھی دیا کہ وہ آرٹیکل ۲۵، ۲۶ کو بہت گہرائی سے مطالعہ کریں اور اس سلسلہ میں جو قانونی مناقشہ Constitutional Debate ہے جو پانچ جلدوں میں ہے اسے بھی پڑھیں، محاضرہ کے اخیر میں مشارکین نے سوالات کیے جس کے تشفی بخش جوابات انھوں نے دیئے۔

دوسری نشست:

دوسری نشست 1:00 تا 2:30 حضرت مولانا عتیق احمد بستوی صاحب کی صدارت میں منعقد ہوئی، نظامت کے فرائض ایڈوکیٹ اجمل قاسمی نے انجام دیئے، اس نشست کا پہلا محاضرہ "تبدیلی مذہب مخالف قانون" کے موضوع پر مولانا ابرار حسن ندوی نے پیش کیا، انھوں نے تبدیلی مذہب قانون پر تفصیلی بحث کی، اور اس حوالہ سے جو مختلف قوانین پاس ہوئے ہیں اس پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ۲۰۱۰ء میں لوجہاد اینگل شروع ہوا، کیرالہ کے جج نے یہ معاملہ اٹھایا، ان کا ماننا تھا کہ کرسچن عورتوں کو مسلمان لڑکے مسلمان بناکر شادی کر رہے ہیں، اسی طرح یوپی میں ۲۰۲۱ء میں آرڈیننس آیا، اتراکھنڈ اور ہماچل میں پہلے ہی یہ قوانین پاس ہوچکے تھے، اسی طرح ۱۹۶۷ء میں اڑیسہ میں، ۱۹۷۲ء میں مدھیہ پردیس میں بھی اس طرح کے قوانین پاس ہوچکے ہیں۔

اس نشست کا دوسرا محاضرہ "فضلاء مدارس اور قانون کی تعلیم - مسائل اور حل" کے موضوع پر ایڈوکیٹ نہال احمد ندوی نے پیش کیا، انھوں نے کہا کہ لا ء کے میدان میں مدارس کے فارغین کو زیادہ سے زیادہ متوجہ کرنے اور اس فیلڈ کی ضرورت و اہمیت کے پیش نظر فضلاء مدارس کو قانون کی تعلیم کی ترغیب دینے کی ضرورت ہے، انھوں نے کہا کہ ہر انسان خصوصا مدارس کے طلبہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ ملک کے دستور وقانون سے واقف ہوں کہ دستور ہند میں کیا کیا بنیای حقوق ملک کے باشندوں کو دیئے گئے ہیں، اس سے واقف ہونا بہت ضروری ہے، انھوں نے مزید کہا کہ ایک بہتر سماج کی تشکیل کے لیے زیادہ سے زیادہ قوانین سے واقف ہونا ضروری ہے، محاضر محترم نے ہندوستانی یونیورسٹیز، نیشنل اسکول آف لاء اور پرائیوٹ لاء کالجز میں داخلہ لینے اور لاء کی تعلیم حاصل کرنے کی طرف توجہ دلائی اور اس راہ میں جو مشکلات ہیں ان کے حل کی راہ دکھائی، مثلاً دسویں اور بارہویں کی اسناد کو حاصل کرنا، انگریزی و ہندی زبان پر عبور حاصل کرنا، صحیح رہنمائی اور گائڈنس لینا۔

اس نشست کے صدر حضرت مولانا عتیق احمد بستوی نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ ہندوستان کے شمال مشرقی علاقوں میں عیسائیوں کی اکثریت ہے، جہاں آج صورتحال بہت خطرناک ہے، تبدیلی مذہب سے متعلق ہندو تو شروع ہی سے بے خوف رہے ہیں، لیکن آج اور زیادہ بے خوف ہوگئے ہیں، اگر ایمانداری سے دیکھا جائے تو آج کل سراسر قانون کی خلاف ورزی ہورہی ہے، بنیادی حقوق کے خلاف کوششیں ہورہی ہیں کہ سبھی کے لیے یکساں قانون سازی کی جائے جس کا مقصد واضح ہے کہ اس قانون کا شکار عیسائی اور مسلمان ہوں گے، مولانا بستوی صاحب نے اس ورکشاپ کے انعقاد پر اپنی خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ اس میدان میں علماء کے آنے سے مسائل کا صحیح ادراک ہوگا اور مقدمات کی بہتر انداز میں پیروی ہوگی۔

تیسری نشست:

ورکشاپ کی تیسری نشست شام ۵ تا ۷/ بجے منعقد ہوئی جس کی نظامت مولانا نوید سیف حسامی صاحب نے کی، اس نشست کا مرکزی موضوع "عائلی قوانین اور قانونی ڈھانچہ (آئینی قوانین اور دستوری قوانین" تھا، جس پر سپریم کورٹ آف انڈیا کے ایڈوکیٹ جناب ناصر عزیز اور جناب اسعد علوی صاحبان نے مندرجہ ذیل نکات پر گفتگو کی۔ "ہندوستان میں مختلف عائلی قوانین، رسم و رواج اور ان کی قانونی حیثیت، شریعہ ایپلی کیشن ایکٹ ۱۹۳۷، انفساخ نکاح مسلم ایکٹ ۱۹۳۹، اسپیشل میرج ایکٹ ۱۹۵۴، ہندومیرج ایکٹ ۱۹۵۵ اور ہندو پرسنل لاء سے متعلق دیگر قوانین" وغیرہ۔

ناصر عزیز صاحب نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ شریعت ایپلی کیشن ایکٹ ۱۹۳۷ء کا نفاذ صرف عائلی معاملات میں ہوتے ہیں، یہ تین صفحات اور چھ شقوں پر مشتمل ہے، اس میں نکاح، طلاح، وراثت اور وقف وغیرہ کے معاملات آتے ہیں، شریعت ایکٹ کے تحت فیصلے کرانے کے لئے آدمی کو ایک ڈیکلریشن دینا ضروری ہوتا ہے، اور اگر کوئی چاہے تو نئے بنے ہندستانی قانون کے مطابق اپنے فیصلے کراسکتا ہے، لیکن عام طور سے مسلمان شریعت کے مطابق ہی اپنے فیصلے کراتے ہیں۔

قانون انفساخ نکاح مسلمین ۱۹۳۹ (Dissolution of Muslim Marriage) پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ  شادی سوشل کنٹریکٹ ہے، شریعت ایکٹ سے سیکشن ۲ کو وہاں سے ہٹاکر اسے ۱۹۳۹ میں ایک الگ سے مسلم میرج ایکٹ کے تحت شامل کردیا گیا، اس میں یہ ہے کہ عورت کو یہ حق ہے کہ وہ عدالت کے ذریعہ بھی اپنے شوہر سے علاحدگی حاصل کرسکتی ہے، اس میں سے ایک شوہر کا چار سال تک غائب ہونا ہے،۲-شوہر دو سال سے خرچ نہیں دے رہا ہو، عدالت میں صرف دعوی نہیں بلکہ ثبوت بھی پیش کرنا ہوگا، کیزویلٹی ظلم و تشدد کی بنیاد پر بھی علاحدگی ہوسکتی ہے۔

۳-      شوہر کو اگر کسی جرم میں سات سال تک سزا ہوجائے تو اس کو بھی بنیاد بناکر علاحدگی کراسکتی ہے۔

۴-      اگر شوہر تین سال تک بیوی سے ہمبستری نہ کرے اور علاحدہ رہے تو اس کو بھی بنیاد بناکر بیوی علاحدگی کی عدالت سے درخواست کرسکتی ہے۔

۵-      مرد کے نا اہل ہونے کی بنیاد پر بھی علاحدگی کی درخواست دے سکتی ہے، اگر علاج کے بعد صحیح ہوگیا ہو تو پھر وہ درخواست دے سکتی ہے۔

۶-       اگر شوہر کو دو سال تک عقل میں خلل ہو، یا وہ جذام کے مرض کا یا کسی خطرناک جنسی مرض کا شکار ہو تو پھر وہ درخواست دے سکتی ہے۔

۷-      ۱۵ سال سے پہلے ولی اگر اس کی شادی کردیتا ہے تو ۱۸ سال تک پہنچنے سے پہلے تک وہ علاحدگی کی درخواست کرسکتی ہے۔

الف: اگر ذہنی طور پر ٹارچر کر رہا ہو۔

ب: شوہر آوارہ ہو یا بیوی کو غلط کام پر ابھار رہا ہو۔

ج: اگر بیویوں کے درمیان مساوات نہ کرے۔

جناب اسعد علوی صاحب(ایڈوکیٹ) نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اسپیشل میرج ایکٹ کے جو گراؤنڈز ہیں وہی مسلم میرج ایکٹ میں بھی ہیں، مشارکین کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ آپ صرف نکاح و طلاق کے ایکٹ مت پڑھیں، بلکہ اس کے علاوہ سائبر ایکٹ وغیرہ بھی پڑھیں۔

رسم و رواج کو کانسٹی ٹیوشنل حق نہیں حاصل ہے، یہ پرسنل رسم قانونی دائرہ میں شامل نہیں ہے۔

نکاح و طلاح سے متعلق جو گراؤنڈ مسلم ایکٹ میں ہیں وہی ہندو میرج ایکٹ اور اسپیشل میرج ایکٹ میں بھی ہیں۔

کسی جگہ پر ماموں بھانجی میں رسم کی بنیاد پر شادی ہوتی ہے تو یہ چیز دوسرے مذہب میں غلط ہے تو پھر یکسانیت کی بات کہنا صحیح نہیں ہے، اسی لئے ماہرین قانون کی رائے ہے کہ یونیفارم سول کوڈ ہندوستانیوں کے لئے مفید اور سودمند نہیں ہے، بلکہ اس سے بہت سے قوانین متاثر ہوں گے اور لوگوں کو حرج ہوگا۔

چوتھی نشست:

اس دو روزہ ورکشاپ کی چوتھی نشست جناب ڈاکٹر عبد القدیر صاحب (چیئرمین شاہین گروپ) کی صدارت میں منعقد ہوئی، نظامت مولانا محمد عبد اللہ ندوی نے خوبصورت انداز میں کی، یہ نشست شرکاء کے تبادلہ خیال کے لئے منعقد کی گئی تھی، اس میں ان شرکاء نے حصہ لیا جنہوں نے لاء کی تعلیم مکمل کرکے وکالت اور پریکٹس شروع کردی ہے، شرکاء نے مندرجہ ذیل تین نکات پر گفتگو کومرکوز رکھا:

۱-       فراغت کے بعد شعبہ قانون میں داخلہ لینے کا محرک اور سبب کیا بنا؟

۲-       قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے دوران پیش آنے والی مشکلات (تعلیمی، مالی اور کالج میں پیش آنے والے واقعات)

۳-      جو فضلاء قانون کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں یا جو آئندہ اس شعبہ میں آنے والے ہیں ان کے لئے تجربات کی روشنی میں مفید مشورے۔

۲۶ شرکاء نے اپنے تجربات اور مفید مشورے پیش کئے،صدارتی خطاب میں ڈاکٹر عبد القدیر صاحب نے اس پروگرام کی اہمیت اور افادیت کا اظہار کیا اور اس پروگرام کاحصہ بنانے پر ذمہ داران اکیڈمی کا شکریہ ادا کیا، انہوں نے اس عزم کا اعادہ بھی کیا کہ وہ جلد ہی فضلاء مدارس کے لئے دوسرے شعبہ جات کے ساتھ ساتھ قانون کے شعبہ میں نمایاں کارکردگی کے لئے دہلی میں کوچنگ کا سلسلہ شروع کریں گے۔

پانچویں نشست:

دوسرے دن مورخہ ۳۰/جولائی ۲۰۲۳ء کی صبح ساڑھے نو تا گیارہ بجے ورکشاپ کی پانچویں نشست منعقد ہوئی، جس کی نظامت مفتی امتیاز احمد قاسمی نے کی، اس نشست میں دو محاضرے الگ الگ عنوانات پر ہوئے، سب سے پہلے حضرت مولانا عتیق احمد بستوی صاحب نے "یکساں سول کوڈ اور مختلف پرسنل لاء پر اس کے نقصانات" کے موضوع پر اظہار خیال کیا، اس کے بعد حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب نے "اسلامی قانون کی معنویت و اہمیت" کے موضوع پر اپنا محاضرہ پیش کیا۔

حضرت مولانا عتیق احمد بستوی صاحب نے اپنے محاضرہ میں فرمایا کہ دفعہ ۴۴ جس میں یکساں سول کوڈ کا ذکر ہے، اس کو نافذ کرنے کی کوشش کانگریس نے بھی کی اور بی جے پی نے بھی، اس دفعہ کو شامل کرنے کی کوشش اس وقت ہوئی جب ۳۰/ مارچ ۱۹۴۷ء میں ایک میٹنگ میں یہ زیر بحث آئی، محمد اسماعیل مرحوم نے ۵ نکاتی ترمیمات اس میں تبدیلی کے لئے پیش کیں، لیکن وہ منظور نہ ہوئیں، دفعہ ۳۵ میں ان ترمیمات کو شامل کرنے کی بات کہی گئی تھی، اس میٹنگ میں ڈاکٹر امبیڈکر نے کہا کہ حکومت کے اختیارات محدود ہیں، لہٰذا اس کو شامل کرنے کی ضرورت نہیں ہے، دفعہ ۲۵ اور ۴۴ میں کئی تضادات ہیں۔

مولانا نے آئین کے مختلف دفعات کی تفصیلات بیان کیں جو خاص طور پر مسلمانوں سے متعلق ہیں، دار القضاء کے ختم ہونے کے بعد رسوم و رواج کے مطابق فیصلے کئے جانے لگے، لیکن اس میں غلط فیصلے کئے جانے لگے جو شریعت کے مطابق نہ تھے تو علماء اور مسلم ممبران پارلیمنٹ نے ۱۹۳۷ء میں شریعت ایپلی کیشن ایکٹ منظور کرایا، اور اس کی وجہ سے شریعت کو جو تحفظ حاصل ہے اسے ہی آج کل ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

واضعین دستور نے دفعہ ۴۴ کو شامل کرکے اقلیتوں پر ایک تلوار لٹکا دی اور آج پرسنل لا کو ختم کرکے یکساں سول کوڈ کو لانے کی کوشش کی جارہی ہے، مولانا محترم نے مرحلہ وار مسلمانوں کے پرسنل لاء کو ختم کرنے کے لئے پارلیمنٹ میں جو کوششیں ہوتی رہیں اس پر تفصیلی روشنی ڈالی۔

"اسلامی قانون کی اہمیت و معنویت" کے موضوع پر اپنے محاضرہ میں حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے فرمایا کہ آئندہ اگر کوئی اس موضوع پر گفتگو ہو تو الہامی قانون اور وضعی قانون کے فرق کو اہمیت کے ساتھ بیان کیا جائے، ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ مسلمانوں کا جو قانون ہے وہ انسانوں کے بنائے ہوئے نہیں ہیں، بلکہ اللہ کے قوانین ہیں ان میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی ہے۔

اسلامی قانون کے مآخذ قرآن، سنت، اجماع و قیاس وغیرہ ہیں، جبکہ دوسرے قوانین میں خود انسان کی عقل یا خواہش کو قانون کا سرچشمہ مانا گیا ہے، ان میں قرآن و سنت ہیں جن میں کوئی تبدیلی نہیں کرسکتا، نہ خواص نہ عوام، اور یہ جو اعتراض کیا جاتا ہے کہ متقدمین و متأخرین کے فتاوی و اقوال میں اختلاف ہوتا رہا ہے تو یہ عرف و عادت کی بنیاد پر ہوتا ہے جس میں زمانہ کے اعتبار سے تبدیلی ہوسکتی ہے، البتہ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے کوئی ایسا لفظ استعمال کیا ہے جس کی وضاحت و تشریح نہیں کی گئی ہے تو ہر زمانہ کے فقہاء نے اس کو اپنے زمانے کے حساب سے تطبیق دی، جیسے یہ آیت: واشہدوا ذوی عدل منکم، اسی طرح قبضہ حسی اور قبضہ معنوی کا مسئلہ ہے، اگر کوئی نص قطعی الثبوت ہو تو اس میں تبدیلی نہیں ہوسکتی، البتہ اس کی تشریح اور اطلاق و انطباق میں فرق ہوسکتا ہے، اسی طرح کوئی نص ظنی الثبوت ہو تو اس میں احوال زمانہ کا اعتبار کیا ہے اور فقہاء کی آراء میں اختلاف ہوجاتا ہے، اگر کسی نص میں کئی مفاہیم کا احتمال ہو تو اس میں حالات کے اعتبار سے ترجیح کا اعتبار کیا جائے گا، اسلام میں کوئی قانون ایسا نہیں ہے جو فطرت سے ہٹا ہوا ہو، اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لئے جو قانون بنایا ہے اس میں فطرت کا پورا پورا لحاظ اور رعایت رکھی گئی ہے جیسے ہم جنسی کی شادی، زنا، سود وغیرہ۔

اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو مساوات کے اصول پر نہیں بلکہ عدل کے اصول پر پیدا کیا ہے، عدل اصل ہے اور مساوات اس کے تابع ہے، کبھی مساوات اور برابری میں عدل کا تقاضا ہوتا ہے، اس وقت برابری بھی ضروری ہوگی، اور کبھی عدل کا تقاضا ہوتا ہے کہ تمام لوگوں پر برابری کے ساتھ اس کا اطلاق نہیں کیا جائے بلکہ فرق کے ساتھ اس کو نافذ کیا جائے، ایسے موقع پر شریعت مساوات کے بجائے عدل کا راستہ اختیار کرتی ہے۔

چھٹی نشست:

۱۱/ بجے تا ساڑھے بارہ بجے دن ورکشاپ کی چھٹی نشست منعقد ہوئی، جس کی نظامت مفتی اسامہ ادریس ندوی نے انجام دی، اس نشست میں دو محاضرے ہوئے:پہلا محاضرہ سپریم کورٹ آف انڈیا میں ایڈوکیٹ آن ریکارڈ جناب فضیل ایوبی (ایڈوکیٹ) نے "نفرت انگیز بیانات سے متعلق قوانین اور قانونی حل" کے موضوع پر پیش کیا،جبکہ دوسرا محاضرہ ایڈوکیٹ زاہد اختر فلاحی نے "قانون کے طلبہ کے لئے LLB کی تکمیل کے بعد کیریئر کے مواقع" کے موضوع پر پیش کیا۔

جناب فضیل ایوبی ایڈوکیٹ نے کہا کہ ابھی تک ہیٹ اسپیچ کی صحیح ڈیفینیشن نہیں آئی ہے، گؤ رکچھک کے قانون ساٹھ کی دہائی میں بہت پہلے سے بنا ہوا ہے، خاص طور سے ساؤتھ میں، یہ الگ بات ہے کہ اس کا غلط استعمال ہورہا ہے، سپریم کورٹ نے ہیٹ اسپیچ کے خلاف مختلف گائیڈ لائن بناکر ملک کے صوبوں کو ہدایت دی ہے، یہ الگ بات ہے کہ ملک میں ان گائیڈ لائنس پر عمل در آمد نہیں کیا جارہا ہے، دفعہ ۱۵۳، اور دفعہ ۲۹۵ اور ۲۹۸، ۵۰۵ اس سلسلہ میں ہیں، جس میں ہے کہ کسی مذہب کے خلاف یا کسی مذہبی شخص کے خلاف ہیٹ اسپیچ کے ذریعہ کسی کے جذبات مجروح نہیں کئے جاسکتے ہیں، محترم فضیل ایوبی نے ہیٹ اسپیچ دینے والے کے خلاف FIR کرنے کے طریقہ کار پر روشنی ڈالی۔

ایڈوکیٹ زاہد فلاحی نے اپنے محاضرہ میں کہا کہ جو حضرات بھی ایڈوکیسی کرنا چاہتے ہیں انھیں محنت کرنا ہوگی اور انھیں پورے لاء کو پڑھنا ہوگا، اور جس کی جو صلاحیت ہے وہ اسی سیکشن میں کوشش کرے، خواہ وہ کرمنل لاء ہو یا سول لاء وغیرہ، قانون کے طلبہ کے لئے جو مواقع میسر ہیں اور جن میدانوں میں وہ کام کرسکتے ہیں ان پر تفصیل سے روشنی ڈالی، آربٹریشن اور میڈیٹیشن سیکشن میں ضلعی عدالت سے لے کر سپریم کورٹ تک میں اس پر کام کرسکتے ہیں۔

اس دو روزہ قومی ورکشاپ کے چھ کامیاب بزنس سیشنس کے بعد ساڑھے بارہ تا دو بجے اختتامی نشست منعقد ہوئی جس کی صدارت حضرت مولانا عتیق احمد بستوی صاحب نے فرمائی جبکہ نظامت کے فرائض مفتی احمد نادر قاسمی نے انجام دیئے، اس نشست میں حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کے علاوہ جناب ڈاکٹر قاسم رسول الیاس ترجمان آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ بھی شریک رہے۔

جناب ڈاکٹر قاسم رسول الیاس نے اختتامی نشست میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اسلامک فقہ اکیڈمی قابل مبارکباد ہے کہ اس نے اس طرح کا پروگرام رکھا، ہماری اپنی رائے ہے کہ بعض مسلم وکلاء خلاف شریعت فیصلوں کے آنے میں معاون بنتے ہیں اور یہ صحیح نہیں، اس کی کئی مثالیں پیش کیں، جیسا کہ آسام میں جسٹس بہاء الاسلام نے طلاق کے سلسلہ میں غلط فیصلہ دیا اور کہا کہ تحکیم کے بغیر طلاق واقع نہیں ہوتی، اسی طرح ایک جج نے داڑھی اور مسجد کے تعلق سے غلط فیصلہ دیا، ایک تو لاعلمی کی بنیاد پر اور کبھی تعبیر کی غلطی کی وجہ سے غلط فیصلے ہوجاتے ہیں، بہرحال قابل مبارکباد ہیں آپ حضرات کہ آپ لوگ شریعت کو سمجھتے ہیں، لہٰذا اس سلسلہ میں آپ حضرات جب فیصلے میں شامل ہوں گے تو صحیح فیصلے آئیں گے۔

مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب نے اختتامی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مدارس کے فضلاء کے لئے اس طرح کے مختلف پروگرام کئے جائیں اور ان میدانوں کی طرف رہنمائی کی جائے جو ملت و قوم کے لئے سود مند ثابت ہوں اور وہ فضلاء وہاں سے نکل کر سماج کے لئے کام کرسکیں، آپ حضرات کے قانون کے میدان میں آنے سے یہ فائدہ ہوگا کہ آپ ترجمان بھی ہمارے ہوں گے اور دماغ بھی، اور دوسرے لوگ ترجمان تو ہمارے ہوتے ہیں لیکن ہمارے دماغ نہیں ہوتے۔

شرکاء کی طرف سے ایڈوکیٹ نہال احمد ندوی نے تاثرات پیش کئے، انہوں نے اپنے تاثرات اور دلی جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں پچاسوں کانفرنسوں اور پروگراموں میں شریک ہوچکا ہوں، پیپر بھی پیش کئے اور خطاب بھی کیا اور کئی پروگراموں نے میرے دل پر نقوش چھوڑے لیکن یہ پروگرام، اس کے موضوعات، اس کے محاضرین اور اس کے انتظام و انصرام نے سارے نقوش مٹا دیئے اور اپنا نہیں مٹنے والا نقش قائم کردیا، انہوں نے اکیڈمی کے ذمہ داروں سے خواہش کی کہ اس طرح کے پروگرامس مختلف ریاستوں میں منعقد کئے جائیں۔

اخیر میں حضرت مولانا عتیق احمد بستوی صاحب نے اپنے صدارتی کلمات میں فرمایا کہ اس پروگرام کو دیکھنے کے بعد یہ اندازہ ہوا کہ ہمارے مدارس کے بچے کن کن میدانوں میں خدمات انجام دے رہے ہیں، انہوں نے شرکاء کو مشورہ دیتے ہوئے فرمایا کہ آپ سب مدارس اسلامیہ کے تربیت یافتہ ہیں، اس لئے مدارس سے اپنی نسبت کو برقرار رکھیں اور اپنی اصل حیثیت کو ضرور یاد رکھیں، آپ جہاں بھی جائیں اچھے اقدار اور اپنی شناخت کے ساتھ جائیں، ہمارا مقصد ”ان صلاتی و نسکی و محیای و مماتی للرب االعالمین“ ہونا چاہئے، اس پیشہ میں جوخرابیاں در آئی ہیں ان کو اپنی تعلیم اور تعلیمی ذخیرہ کی روشنی میں اور اس کو سامنے رکھتے ہوئے ان خرابیوں سے بچنے اور ان کو درست کرنے کی کوشش کریں اور آپ اپنے کو اس طرح پیش کیجئے کہ لوگ یہ سمجھیں کہ وکلاء بھی دیانتدار ہوتے ہیں، اور لوگ آپ سے قریب ہوں، شریعت کے خلاف جو فیصلے ہوتے ہیں جیسے موجودہ حالات میں طلاق ثلاثہ کا مسئلہ ہے، تو آپ حضرات ایسے فیصلوں کا شرعی اور قانونی تجزیہ کریں، اس وقت کوشش یہ ہورہی ہے کہ مرد کے طلاق کا اختیار چھین لیا جائے، اورنگ آباد فیصلہ، آسام فیصلہ کو بنیاد بناکر سپریم کورٹ نے شمیم آرا کیس میں اس کو مثال بنایا ہے، اور اس وقت صورت حال یہ ہے کہ عورتیں بھی پریشان ہیں اور مرد حضرات بھی، لہٰذا آپ حضرات سے گزارش ہے کہ آپ سماج کے مسلمانوں کو سمجھایئے اور یہ ماحول پیدا کیجئے کہ آپ لوگ کورٹوں میں مت جائیں، بلکہ اپنے مسائل کو شریعت کے مطابق حل کرنے کی کوشش کریں، اسلام کے احکام میں انسانیت کی نجات ہے، عورتوں کو مردوں کے برابر لانے کے نام پر اور آزادی دلانے کے نام پر ہمارے یہاں قوانین بنائے جارہے ہیں جبکہ یہ خلاف فطرت ہے۔

اس موقع پر تمام شرکاء ورکشاپ کو سند شرکت اور مومنٹوں پیش کرکے حوصلہ افزائی کی گئی۔ حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب کی دعاء پر یہ دو روزہ قومی ورکشاپ اختتام پذیر ہوا۔

VIEW DETAILS
<b>امام شاطبی کے مقاصدی قواعد: الموافقات کے حوالے سے</b>

امام شاطبی کے مقاصدی قواعد: الموافقات کے حوالے سےکانفرنس ہال اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا, 10/12/2022

اصول فقہ اور مقاصد شریعت کے باب میں "الموافقات" ایک تاریخی کارنامہ ہے

 

مورخہ ۱۰/ دسمبر ۲۲۰۲ء

آٹھویں صدی کی اہم علمی شخصیات میں امام شاطبی کا نام آتا ہے جنہوں نے اپنی مشہور و معروف کتاب ”الموافقات“ کے ذریعہ اصول فقہ اور مقاصد شریعت کے باب اپنی جداگانہ شناخت قائم کی ہے جس کا نہ صرف مختلف زبانوں میں ترجمے ہوئے بلکہ بہت سے ممالک کے یونیورسٹیز میں اس پر تحقیقی مقالے لکھے گئے اور بڑے بڑے علماء و دانشوروں نے اس کتاب کی اہمیت و افادیت اور اس کی عظمت کی بنا پر بے شمار مقالے لکھے۔ ان خیالات کا اظہار اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کے سمینار ہال میں "امام شاطبی کے مقاصدی قواعد: الموافقات کے حوالے سے" کے موضوع پر منعقد ایک محاضرہ میں سابق شیخ الحدیث و صدر المدرسین دار العلوم مؤ حضرت مولانا ڈاکٹر ظفر الاسلام صدیقی صاحب نے کیا۔

انھوں نے کہا کہ در اصل احکام شریعت کے کچھ علت و اسباب اور مقاصد ہوتے ہیں۔ علل ظاہر اور منضبط ہوتا ہے جبکہ مقاصد امر مخفی اور غیر منضبط ہوتے ہیں۔ مقاصد سے اطمینان اور حق الیقین حاصل ہوتا ہے اور مقاصد سے اعلیٰ یقین کے درجہ کو پہنچا جاتا ہے۔ اسی لیے تفہیم شریعت میں مقاصد شریعت سے واقفیت کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ انھوں نے امام شاطبی کے حوالے سے کہا کہ شریعت اور اس کے مقاصد کو سمجھنا اس وقت ممکن ہوگا جب اس زبان سے واقفیت حاصل کی جائے جس زبان میں شریعت اور احکام نازل ہوئے ہیں۔ محاضر محترم نے مزید کہا کہ جب علامہ شاطبی نے ”الموافقات“ لکھی تو حسد کی وجہ سے ان پر بہت تیکھے حملے ہوئے اور الموافقات پر ان گنت اعتراضات کیے گئے۔ اور کہا گیا کہ شاطبی اولیاء اللہ کے مخالف ہیں، نیز یہ بھی کہا گیا کہ ان کا رجحان تشیع کی جانب تھا اور وہ خلفاء راشدین کے مخالف تھے۔ محاضر محترم نے کہا کہ یہ سب جملے اور الزامات در اصل معاصرانہ چشمک کی وجہ سے تھا۔ معاصرانہ چشمکوں کا ذکر کرتے ہوئے محاضر محترم نے دوسری اسلامی اور علمی و دینی شخصیات کے معاصرانہ چشمکوں کا بھی ذکر کیا مثلاً ابن حجر عسقلانی، بدر الدین عینی،اسحاق،امام مالک اور امام ذہبی وغیرہ۔

اخیر میں صدر محترم نے اپنا صدارتی خطاب پیش کیا جس میں انھوں نے کہا کہ شاطبی کا تعلق اندلس سے تھا جہاں اسلامی علوم کے تقریباً تمام موضوعات پر کام ہوئے، علم و فن کے میدان میں جو کارنامے اندلس میں انجام دیئے گئے پوری اسلامی تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی، لیکن اسی کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ سارے کام اندلس کے دور عروج کے بجائے دور زوال میں ہوئے۔ انھوں نے کہا کہ اصول فقہ کے باب میں امام شاطبی کی الموافقات سے پہلے جوینی، غزالی، ابن تیمیہ وغیرہ مقاصد شریعت کے حوالے سے کام کرچکے تھے لیکن اس باب میں جو اہمیت شاطبی کو ملی اور جو کارنامہ شاطبی نے انجام دیا وہ تاریخ ساز ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ موجودہ عالمی سیاق میں مقاصد پر کئی محاضرات  اور لیکچرز کی ضرورت ہے تاکہ اس کے قواعد و ضوابط اور اس کے مقتضیات کو بخوبی سمجھا جاسکے۔

محاضرہ کا آغاز مولانا عدنان ندوی صاحب کی تلاوت کلام پاک سے ہوا اور نظامت کے فرائض ڈاکٹر صفدر زبیر ندوی نے انجام دیئے۔ پروگرام کی صدارت مولانا ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی نے کی۔ پروگرام میں جامعہ ملیہ، ذاکر حسین کالج کے اساتذہ و طلباء کے علاوہ اسلامی اکیڈمی کے طلباء اور علاقہ کی اہم شخصیات نے شرکت کی جن میں ڈاکٹر مشتاق تجاروی، مولانا شمیم احمد قاسمی، مولانا اویس صدیقی، جناب اکرم صاحب، جناب تنویر صاحب، ڈاکٹر سرفراز وغیرہ شامل رہے۔

جاری کردہ

اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا

VIEW DETAILS
<b>مسلم پرسنل لا کو درپیش چیلنجز اور مسلمانوں کا مطلوبہ کردار</b>

مسلم پرسنل لا کو درپیش چیلنجز اور مسلمانوں کا مطلوبہ کردارکانفرنس ہال اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا, 05/12/2022

موجودہ حالات میں مسلم پرسنل لا کو درپیش چیلنجز کے حل کے لیے اسلامی قوانین کا گہرائی سے مطالعہ کرنا اشد ضروری

 

مورخہ ۵/ دسمبر ۲۰۲۲ء

برطانوی سامراج کے دور سے ہی مسلم علماء و دانشوران ملت نے مسلم پرسنل لا کو درپیش چیلنجز کا سامنا کیا ہے اور موقع بہ موقع اپنی کوششوں اور سوجھ بوجھ سے اس کے لیے راہیں ہموار کی ہیں، چاہے وہ 1937 کا شریعہ اپلی کیشن ایکٹ کی صورت میں ہو یا پھر 1939 کا انفساخ نکاح مسلمہ کی صورت میں، ان خیالات کا اظہار دار العلوم ندوۃ العلماء کے استاذ فقہ اور اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کے سکریٹری حضرت مولانا عتیق احمد بستوی صاحب نے اسلامک فقہ اکیڈمی کے سمینار ہال میں "مسلم پرسنل لا کو درپیش چیلنجز اور مسلمانوں کا مطلوبہ کردار" کے موضوع پر منعقد توسیعی محاضرہ میں کیا۔

انھوں نے کہا کہ مسلم دور حکومت کے عدالتی نظام میں شرعی قوانین کی پاسداری تو ہوتی ہی تھی لیکن جب برطانوی سامراج آیا تو انگریزوں نے بھی مذہبی قوانین کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے عدالتوں میں ہر مذہب و ملت کے ججوں کی تقرری کی اور ہر مذہب کے ماننے والوں کے خصوصی اور عائلی مقدمات کو ان کے مذہبی قوانین کی روشنی میں حل کرنے کو یقینی بنایا۔ لیکن مسلمانوں کے لیے مشکل گھڑی اس وقت آئی جب 1857ء کے بغاوت کے بعد 1864ء میں انگریزوں نے مذہبی قوانین کے عمل دخل کو عدالتوں سے ختم کردیا۔

محاضر محترم نے مزید کہا کہ آزادی سے پہلے عدالتوں میں اسلامی قوانین کا پاس و لحاظ رکھا جاتا تھا اور خصوصی و عائلی مقدمات کو قوانین اسلامی کی روشنی میں حل کیا جاتا تھا، لیکن آزادی کے بعد خصوصاً شاہ بانو کیس کے بعد ہندوستانی عدالتوں کے رُخ میں تبدیلی آئی اور عدالتوں نے مسلم پرسنل لا کو پس پشت ڈال کر اپنی صوابدید کے موافق اسلامی قوانین کی تشریح کرنی شروع کردی اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے جس کی واضح مثال طلاق کے سلسلہ میں دیا گیا فیصلہ ہے۔ محاضر محترم نے کہا کہ موجودہ حالات میں مسلمانوں کے لیے اشد ضروری ہے کہ اپنے مسائل کو اسلامی قوانین کی روشنی میں حل کرنے کی کوشش کریں، اور اسلامی قوانین کا بہت گہرائی سے مطالعہ کریں؛ کیونکہ اسلامی قوانین کی تفہیم کے ذریعہ ہی اس کو درپیش چیلنجز کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ خود ہمارے اندر بھی کمی ہے کہ ہم لوگ اسلامی شریعت پر عمل کے لئے بیدار نہیں ہیں، اسلامی قوانین اور اللہ کے احکام پر پوری طرح عمل کرکے ہی ہم ان مسائل و مشکلات پر قابو پاسکتے ہیں۔

پروگرام کی نظامت مفتی احمد نادر قاسمی نے کی جبکہ صدارت مولانا عبد القادر خان صاحب نے فرمائی۔ پروگرام کا آغاز مولانا روح الامین کے تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ محاضرہ کے اختتام پر سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا اور شرکاء نے اپنے سوالات محاضر محترم کے سامنے رکھے جن کا انھوں نے تسلی بخش جواب دیا۔ اخیر میں صدر مجلس نے اپنے صدارتی کلمات پیش کیے اور دعاء پر اس نشست کا اختتام ہوا۔ پروگرام میں علاقہ کی مختلف تنظیموں اور اداروں کے علاوہ دوسری مقتدر شخصیات نے بھی شرکت کی، خاص طور پر قاضی محمد کامل قاسمی، مولانا افروز عالم قاسمی، مولانا شمیم احمد قاسمی، جناب صفی اختر صاحب، ڈاکٹر سرفراز اور قاضی تبریز عالم قاسمی وغیرہ شامل ہیں۔

جاری کردہ

اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا

VIEW DETAILS
</b>ہندوستان کی مسلم صحافت: آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد<b>

ہندوستان کی مسلم صحافت: آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعدکانفرنس ہال اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا, 03/12/2022

محاضرہ

ہندوستان کی مسلم صحافت: آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد

 

مورخہ ۳/ دسمبر ۲۰۲۲ء اسلامک فقہ اکیڈمی کے سمینار ہال میں "ہندوستان کی مسلم صحافت: آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد" کے موضوع پر ایک محاضرہ منعقد ہوا جس میں جناب آصف عمر صاحب (سینئر صحافی) نے قیمتی محاضرہ پیش کیا۔

ہندوستان میں جب سے صحافت کا آغاز ہوا، مسلم صحافت کا وجود بھی اسی وقت سے پایا جاتا ہے اور اس وقت سے آج تک ہر دور اور ہر عہد میں مختلف سطح پر مسلم صحافت نے اپنی خدمات انجام دی ہیں چاہے وہ فلمی صحافت مثلاً: شمع اور دوسرے رسائل کے ذریعہ یا پھر اسپورٹ میگزین، مختلف قسم کے ڈائجسٹ ہوں مثلاً ہما، خاتون مشرق، بانو وغیرہ یا پھر مختلف دینی اداروں سے نکلنے والے سینکڑوں مذہبی اور دینی رسائل و جرائد۔ ان مختلف سطحوں پر کی جانے والی کوششوں کو مسلم صحافت کی روایت میں شمار کیا جاسکتا ہے، ان خیالات کا اظہار محاضر محترم نے کیا۔ انھوں نے مسلم صحافت کی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے مزید کہا کہ ۱۸۵۷ کے عہد میں غالب کے دستنبو کو بھی صحافت میں ایک خاص مقام حاصل ہے کیونکہ وہ بھی اپنے عہد پر روشنی ڈالتا ہے۔ اسی طرح اس دور میں مولوی محمد باقر کے اخبار اور ان کی صحافت میل کا پتھر ہے۔

محاضر محترم نے کہا کہ مولانا ابو الکلام آزاد کے الہلال اور البلاغ اور مولانا محمد علی جوہر کے کامریڈ اور ہمدرد کو مسلم صحافت کے باب میں بھلایا نہیں جاسکتا۔ کیونکہ ہندوستان کی مسلم صحافت میں انگریزی میں محمد علی جوہر اور اردو میں مولانا ابو الکلام آزاد ایک نمایا نمام ہے جنہوں نے اپنی صحافت سے گہرے اثرات مرتب کیے۔ محاضر محترم نے کہا کہ بیسویں صدی میں مختلف جماعتوں کا قیام عمل میں آیا مثلاً جماعت اسلامی وغیرہ، ان جماعتوں اور مراکز نے مختلف زبانوں میں رسائل جرائد شائع کرکے باب صحافت میں اپنی خدمات دی ہیں۔ ان کے علاوہ مولانا ظفر علی خان، مولانا مودودی وغیرہ کا بھی نام لیا جاسکتا ہے جنہوں نے نہ صرف تحریک آزادی میں گراں قدر خدمات انجام دیں بلکہ اپنی صحافت سے اصلاح معاشرہ میں بھی گہرے اثرات مرتب کیے۔

انہوں نے کہا کہ تقسیم ہند کے نتیجے میں بہت سارے اخبارات مثلاً جنگ، نوائے وقت وغیرہ پاکستان چلے جس کے بعد ہندوستان میں از سر نو کوششیں ہوئیں اور ہندوستان کے مختلف خطوں سے مختلف اخبارات و رسائل جاری ہوئے مثلاً اعتماد، سالار، اخبار مشرق، آگ، روزنامہ دکن، سنگم، قومی تنظیم، صدائے عام، نشیمن، تجلی، نقیب وغیرہ۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کوئی اخبار ایسا نہیں جو ملک گیر سطح پر اپنی گرفت رکھتا ہو۔ حالانکہ جماعت اسلامی نے مختلف زبانوں میں مختلف سطح پر کوششیں کیں لیکن اس نے بھی کوئی خاطر خواہ اثرات مرتب نہیں کیے۔

محاضر محترم نے کہا کہ وقت کی ضرورت ہے کہ نہ صرف اردو میں بلکہ انگریزی اور دوسری زبانوں میں ایسے اخبارات نکالے جائیں جو ملک گیر سطح پر اثرات مرتب کرسکیں۔

محاضرہ کا آغاز مولانا توصیف قاسمی کی تلاوت کلام اللہ سے ہوا۔ پروگرام کی صدارت مولانا عبد القادر خان صاحب نے کی جبکہ نظامت کے فرائض مولانا امتیاز احمد قاسمی نے انجام دیئے۔ پروگرام میں جناب قاسم سید، جناب شمس تبریز قاسمی وغیرہ نے شرکت کی۔

جاری کردہ

اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا

VIEW DETAILS
<b>انڈیاکے اکتیسویں فقہی سیمینار</b>

انڈیاکے اکتیسویں فقہی سیمیناردارالعلوم شیخ علی متقی برہانپور , 05-07/11/2022

ملت کے مشترکہ مسائل کے حل کے لیے اجتماعی کوششیں کرنا اور معمولی فروعی اختلافات سے اجتناب کرنا وقت کی اہم ضرورت

 

اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیاکے اکتیسویں فقہی سیمینارکے افتتاحی اجلاس سے مولاناخالدسیف اللہ رحمانی،مولاناسفیان قاسمی ودیگرعلمائے کرام کاخطاببرہان پور:5/نومبر2022آج برہانپور کی معروف دینی درسگاہ دارالعلوم شیخ علی متقی میں اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کے سہ روزہ سیمینار کا افتتاحی اجلاس منعقد ہوا جس کی صدارت دارالعلوم وقف دیوبند کے مہتمم مولانا محمد سفیان قاسمی صاحب نے کیاس موقع پر اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کے جنرل سیکریٹری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے کلیدی خطبہ پیش فرمایا، انہوں نے اپنے کلیدی خطبہ میں اس بات پر زور دیا کہ مسلمانوں کے درمیان جو کچھ مسلکی اختلاف ہے وہ فروعی مسائل ہیں، جو ایمان کی اساس اور نجات کا مدار نہیں ہے اور ان میں ایک سے زائد آرا کی گنجائش ہے اور سلف صالحین میں دونوں نقطہ نظر کے حاملین ہیں اس لئے اپنے مسلک کے بارے میں شدت اورایک رائے پراصراراوردوسرے نقطہ نظرکی تغلیط سے بچناچاہئے۔ہندوستان کے اکابرعلماء حضرت مولاناقاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ،حضرت مولانارشیداحمدگنگوہی رحمۃ اللہ علیہ اورعلامہ انورشاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ نے ان مسائل میں شدت برتنے اوران کوحق وباطل قراردینے میں معیاربنانے سے منع کیاہے اورملک کے موجودہ حالات میں اس بات کی شدیدضرورت ہے کہ ملت اسلامیہ چھوٹے چھوٹے فروعی اختلاف کوبحث ومباحثہ کاموضوع نہ بنائیں اورملت کے مشترک مسائل کے حل کے لئے کوششیں کی جائیں۔مولانارحمانی نے اس پس منظرمیں اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیاکاذکرکرتے ہوئے کہاکہ اکیڈمی نے اختلافی مسائل میں اعتدال،ایک دوسرے کی رائے کاتحمل اوراختلاف کے باوجوداتحادکی ایک روایت قائم کی ہے،اورجسے آل انڈیامسلم پرسنل لاء بورڈنے عام مسلمانوں میں مسلک ومشرب کے اختلاف کے باوجودایک اسٹیج پرجمع ہوجانے اورمل جل کرکام کرنے کی بنیادرکھی ہے،اسی طرح اسلامک فقہ اکیڈمی نے طبقہ علماء کوایک ساتھ مل بیٹھنے اوراختلاف رائے کے باوجودایک پلیٹ فارم پرجمع ہونے کی بہترین روایت قائم کی ہے۔افتتاحی اجلاس کی صدارت دارالعلوم وقف دیوبندکے مہتمم مولاناسفیان قاسمی کررہے تھے،انہوں نے اپنے صدارتی خطاب میں دارالعلوم دیوبندکے قیام کے مقاصدکاذکرکرتے ہوئے فرمایاکہ دارالعلوم دیوبندکے قیام کابنیادی مقصدملت اسلامیہ ہندیہ کے دین وایمان کی حفاظت کرناتھا،کیوں کہ بانی دارالعلوم حجۃ الاسلام حضرت نانوتوی کامانناتھاکہ اقتدارجانے کے بعدواپس آسکتاہے لیکن اگرایمان چلاگیاتوسب سے بڑی دولت ہی ختم ہوجائے گی،کچھ بھی نہیں بچے گا۔انہوں نے مزیدکہاکہ اسلامک فقہ اکیڈمی کے قیام کے مقاصدمیں بھی حضرت قاضی مجاہدالاسلام قاسمی رحمۃ اللہ علیہ کے پیش نظربھی یہی تھا کہ آنے والاوقت ہندوستانی مسلمانوں کے لئے بہت دشوارکن ہونے والاہے،اسی لئے اس کی تیاری ابھی سے کرنی ہوگی اوراسی کے پیش نظرحضرت قاضی صاحب نے اکیڈمی کی بنیادرکھی،یہ دراصل قاضی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی ایمانی فراست تھی۔مولاناقاسمی نے اخیرمیں فرمایاکہ حکومتوں کی سرپرستی میں اکیڈمیاں اتنے وسیع پیمانے پرکام نہیں کرپاتی ہیں لیکن اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیابے سروسامانی کے عالم میں اتنابڑاکارنامہ انجام دیا ہے جس کی نظیرملنی مشکل ہے اوریہ سب بانی اوران کے رفقاکارکے اخلاص کاہی نتیجہ ہے۔اکیڈمی کے سکریٹری مولاناعتیق احمدقاسمی بستوی نے سیمینارکے موضوعات کاتعارف کراتے ہوئے علمائے کرام کومخاطب کرتے ہوئے فرمایاکہ آج ہمارایہ حال ہوگیاہے کہ ہم اپنے مسلک کواس اندازمیں پیش کرتے ہیں کہ گویاصرف ہمارامسلک ہی حق ہے،بقیہ سب باطل ہے،اس سے ہمیں بچناچاہئے بلکہ ہمیں اعتدال کے ساتھ سبھی مذاہب کے بارے میں بتاناچاہئے،ہمیں اپنی تحریروں،تقریروں اوراندازدرس غرض کہ ہرجگہ اعتدال کی راہ اپنانی چاہئے۔اکیڈمی کے سینئررکن اورخازن مفتی احمددیولہ نے کہاکہ یہ جوکچھ رونقیں آج آپ دیکھ رہے ہیں یہ سب اکیڈمی کے بانی قاضی مجاہدالاسلام قاسمی رحمۃ اللہ علیہ کے اخلاص کانتیجہ ہے۔جامعہ نظامیہ حیدرآبادکے مفتی صادق محی الدین نے کہاکہ ہمیں مسلمانوں کے تمام طبقات کی فکرکرنے کی ضرورت ہے،بالخصوص ایسے نوجوان جوعصری اداروں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں اوردین سے دورہوجاتے ہیں ان کی فکرکرنابہت ضروری ہے۔جامعہ دارالسلام عمرآبادکے ڈاکٹرعبداللہ جولم نے برادران وطن میں دعوت دین پرزوردیااوراس کی راہیں تلاش کرنے کے تعلق سے غوروفکرکی دعوت دی۔جماعت اسلامی ہندکے شعبہ اسلامی معاشرہ کے سکریٹری ڈاکٹررضی الاسلام ندوی نے کہاکہ اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیاکی اہمیت سے ہندوستان کے لوگ بھلے ہی کم واقف ہوں،لیکن بیرون ممالک بالخصوص عالم اسلام کی یونیورسیٹیوں میں ایم فل اورپی ایچ ڈی کے مقالوں میں اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیاکے فیصلوں،تجاویزاورقراردادوں کابہت احترام کیاجاتاہے اوران کاحوالہ بہت اہتمام کے ساتھ پیش کیاجاتاہے۔مدھیہ پردیش کے معروف عالم دین مفتی جنیداحمدفلاحی نے اکیڈمی کاشکریہ اداکرتے ہوئے کہا کہ برہانپورجیسے پسماندہ شہرکوسیمینارکے لئے منتخب کرنایقینابرہانپورکے لئے فخرکی بات ہے۔مولاناتصورحسین فلاحی اندوری نے سیمینارکے کامیاب انعقادکے لئے دارالعلوم کے بانی وناظم مفتی رحمت اللہ قاسمی کومبارکبادپیش کی۔بھوپال سے تشریف لائے مفتی بھوپال مفتی ابوالکلام قاسمی نے کہاکہ برہانپورجیسے شہرمیں جہاں ائیرپورٹ کی سہولت نہیں ہے سیمینارکاانعقادکرنااوراکابرعلماء کاتمام مشقتوں کوبرداشت کرتے ہوئے اس سیمینارمیں شرکت کرناصرف اورصرف اکابرعلماء کااخلاص نیت اورملت اسلامیہ کی انتہائی فکرمندی کی اعلیٰ مثال ہے۔واضح رہے کہ اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیاکااکتیسواں سہ روزہ سیمینارمدھیہ پردیش کے تاریخی شہربرہانپورکے دارالعلوم شیخ علی متقی میں منعقدہورہاہے۔یہ سیمینار۷/نومبرتک چلے گا۔آج اس کاافتتاحی اجلاس تھا،افتتاحی اجلاس کاآغاز دارالعلوم کے ایک طالب علم کی تلاوت قرآن مجیدسے ہوا۔اس کے بعدنعت نبی کانذرانہ بھی دارالعلوم شیخ علی متقی کے ایک طالب علم نے پیش کیا،اجلاس کی نظامت فقہ اکیڈمی کے رکن علمی مفتی صفدرزبیرندوی نے انجام دئیے۔اس موقع پردارالعلوم شیخ علی متقی کے بانی وناظم مفتی رحمت اللہ قاسمی نے خطبہ استقبالیہ پیش کیاجس میں انہوں نے دارالعلوم کامختصرتعارف کراتے ہوئے دارالعلوم میں دوسرے سیمینارکے انعقادپراکیڈمی کے ذمہ داران بالخصوص مولاناخالدسیف اللہ رحمانی کاشکریہ اداکیااورساتھ ہی ملک بھرسے تشریف لائے ہوئے علمائے کرام بھی شکریہ اداکیا۔اجلاس کے آغازمیں برہانپورکے ایم ایل اے ٹھاکرسریندرسنگھ نے علماومفتیان کرام سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ سب سے پہلے تو اپنی سرزمین پرآپ حضرات کااستقبال کرتاہوں اس کے بعدمیں اسلامک فقہ اکیڈمی کاشکریہ اداکرتاہوں کہ وہ دیش کے لوگوں کوصحیح طور پرزندگی گذارنے کاطریقہ سکھاتاہے،آپ لوگ تعلیم کے میدان میں کام کررہے ہیں،یقینادیش تعلیم یافتہ ہوگاتبھی دیش کی جمہوریت مضبوط ہوگی۔خاص بات یہ رہی کہ ٹھاکرسریندرسنگھ نے اپنی گفتگوکاآغازسلام سے کیا،درمیان میں بات بات پرانشاء اللہ بھی کہتے رہے اورآخرمیں خداحافظ کہہ کراپنابیان ختم کیا۔اس موقع پرکانگریس ضلع صدرنے اظہارخیال کرتے ہوئے کہاکہ یہ ایک ایساپروگرام ہے جودین کی باتوں کے ساتھ ساتھ ملک میں امن وامان کیسے قائم کریں،بھائی چارہ کیسے فروغ دیں،وہ بھی ہمیں سکھاتاہے،جس طرح علمائے دین نے دیش کوآزادکرانے میں اپنی قربانی دی اس وقت ضرورت ہے کی علمائے دین دیش میں بھائی چارہ قائم کرنے اورنفرت کے سیلاب کوروکنے کے لئے بھی آگے آئیں۔یادرہے کہ اجلاس کے اخیرمیں اکیڈمی کی چنداہم مطبوعات کارسم اجرابھی کیاگیا۔اکیڈمی کے رکن علمی مفتی احمدنادرالقاسمی کی مرتب کردہ کتاب رویت ہلال سے متعلق چنداہم مسائل کا رسم اجرامفتی صادق محی الدین کے ہاتھوں ہوئی،مفتی امتیازاحمدقاسمی کی مرتب کردہ کتاب محرم کے بغیرسفر کارسم اجرامولاناعتیق احمدبستوی کے ہاتھوں ہوا،کوروناوباسے متعلق مفتی احمدنادرالقاسمی کی مرتب کردہ کتاب کارسم اجرامولاناسفیان قاسمی کے ہاتھوں عمل میں آیا،اسی طرح سوشل میڈیا کے مسائل پرمفتی امتیازاحمدقاسمی کی مرتب کردہ کتاب کارسم اجرامفتی احمددیولہ نے کیا،اکیڈمی کے تعارف پرمشتمل عربی مجلہ مرتب کردہ مولاناصفدرزبیرندوی کارسم اجراڈاکٹررضی الاسلام ندوی کے ہاتھوں ہوا،مفتی جمیل اخترجلیلی کی مرتب کردہ کتاب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہااوران کی عمرکارسم اجراڈاکٹرعبداللہ جولم نے کیاجب کہ مفتی صابرحسین ندوی کی دوکتاب فقہ مقارن اورمقاصدرشریعت کارسم اجراقاری ظفرالاسلام کے ہاتھوں عمل میں آیا۔اس موقع پرمقامی سماجی،ملی وسیاسی شخصیات کاشال اوڑھاکراستقبال بھی کیاگیا۔اخیرمیں صدرمحترم مولاناسفیان احمدقاسمی کی دعاپراجلاس کااختتام ہوا۔

جاری کردہ

اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا

 

VIEW DETAILS
<b>سہ روزہ تربیتی ورکشاپ علوم عالیہ اور مسلم معاشرہ</b>

سہ روزہ تربیتی ورکشاپ علوم عالیہ اور مسلم معاشرہمولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے آرٹس اینڈ سائن, 19-21/09/2022

علوم عالیہ اور مسلم معاشرہ پر مولانا آزاد میں سہ روزہ تربیتی ورکشاپ بحسن و خوبی اختتام پذیر

مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے آرٹس اینڈ سائنس کالج فار ویمن سرینگر اور اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کا مشترکہ سہ روزہ تربیتی ورکشاپ

 

ہمیں علوم کے درمیان تفریق کے بجائے علم میں وحدت پیدا کرنی چاہئے، اور اس کے نفع بخش پہلو کو زیادہ سے زیادہ اجاگرکرنا چاہئے، اس لئے کہ محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے ہی علوم کے اشاعت و ترویج کی حوصلہ افزائی فرمائی ہے جو انسانیت کے لئے نفع بخش ہو، ان خیالات کا اظہار پروفیسر جاسر عودہ (کناڈا) نے اس سہ روزہ تربیتی ورکشاپ میں آن لائن خطاب کرتے ہوئے کیا۔ معروف عالم دین مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے اپنے خصوصی خطاب میں فرمایا کہ اسلام ہر نافع علم کی عزت افزائی کرتا ہے، امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی نسلوں کو اعلیٰ تعلیم سے آراستہ کریں اور ان کے اندر مروجہ تمام اعلیٰ تعلیم کے حصول کا جذبہ پیدا کریں، مولانا رحمانی اس امید کا اظہار بھی کیا کہ یہ ورکشاپ علم و تحقیق کے میدان میں ایک سنگ میل ثابت ہوگا۔ کلیدی خطاب میں اسلامی یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹکنالوجی کشمیر کے پروفیسر حمید اللہ مرازی نے کہا کہ ہم علم کا رابطہ دنیا سے کٹ گیا ہے، جس کا ذمہ دار ہم خود ہیں، مدارس اور یونیورسٹیوں کو مشترکہ طور پر علم کے فروع و ترویج میں اپنا رول ادا کرنا چاہئے۔ ورکشاپ میں مختلف یونیورسٹیز کے ۱۶/ پروفیسرس اور اساتذہ کرام نے عصری، تعلیمی، اقتصادی اور سماجی موضوعات پر لکچرس دیئے، مولانا احمد سعید، پروفیسر حمید اللہ مرازی، ڈاکٹر ظہور احمد گیلانی، شعبہ لسانیات، سنٹرل یونیورسٹی آف کشمیر کے ڈین پروفیسر محمد غیاث الدین اور مولانا عدنان ندوی نے مختلف نشستوں کی صدارت کی اور اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ مانو سرینگر کے پرنسپل اور پروگرام کے کنوینر پروفیسر غضنفر علی خان نے ورکشاپ کے اغراض و مقاصد بیان کیا اور شرکاء و مہمانوں کا استقبال کیا، اس پروگرام کے کو آرڈینیٹر ڈاکٹر سراج الدین قاسمی نے نظامت کے فرائض انجام دیئے اور شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔ شرکاء میں مانو کالج کے علاوہ مختلف یونیورسٹیز کے ریسرچ اسکالرس، اساتذہ نے شرکت کی، اہم شرکاء میں مفتی محمد سلطان قاسمی، ڈاکٹر غلام نبی گنائی، ڈاکٹر ظہور احمد وانی، ڈاکٹر عبد الرشید بٹ، ڈاکٹر نسیم اختر، ڈاکٹر اعجاز عبد اللہ، ڈاکٹر علی محمد بٹ، محترمہ شبنم شمشاد، ڈاکٹر سیار احمد میر، ڈاکٹر محمد مکرم، ڈاکٹر لنگ راج ملک وغیرہ تھے۔

جاری کردہ

اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا

VIEW DETAILS
<b>اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کی سالانہ ۳۲ ویں میٹنگ</b>

اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کی سالانہ ۳۲ ویں میٹنگکانفرنس ہال اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا, 05-06/08/2022

اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کی سالانہ ۳۲ ویں میٹنگ

مولانا نعمت اللہ اعظمی صدر اور مولانا خالد سیف اللہ رحمانی جنرل سکریٹری منتخب ہوئے

 

مولانا امتیاز احمد قاسمی (انچارج شعبہ رابطہ عامہ) کی پریس نوٹ کے مطابق گزشتہ روز اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کی مجلس عاملہ اور مجلس تاسیسی کا اجلاس منعقد ہوا، جس میں سال گزشتہ کی کارکردگی کاجائزہ لیا گیا، آئندہ سال کے لئے علمی و تربیتی منصوبے بنائے گئے اور حسابات پیش کئے گئے اور ۲۳-۲۰۲۲ء کے لئے بجٹ منظور کیا گیا۔

۲۳-۲۰۲۲ء کے علمی و تحقیقی اور تربیتی منصوبوں میں سمینار، کانفرنس، ورکشاپ اور محاضرات کے انعقاد کے ساتھ مختلف نئے علمی موضوعات پر دراسات کی تیاری اور اہم علمی و تحقیقی کتابوں کا اردو اور انگریزی زبان میں ترجمہ بھی شامل ہے، اکیڈمی نے ہندوستانی علماء کی عملی خدمات کو پہلے بھی عرب دنیا میں متعارف کرایا ہے اور آئندہ سال کے منصوبہ میں بھی اس کو شامل رکھا گیا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ ۲۳-۲۰۲۲ء میں علمی و تحقیقی کاموں کے سلسلہ میں اسلاموفوبیا کی موجودہ صورت حال کے پس منظر میں ایسے کاموں کو ترجیحی بنیادوں پر انجام دیا جائے گا جو اسلامی تعلیمات کے بارے میں غلط فہمیوں کو دور کرسکے۔

میٹنگ میں مولانا خالد سیف اللہ رحمانی، مولانا عتیق احمد بستوی، مفتی احمد دیولوی، مولانا محمد سفیان قاسمی، مولانا انیس الرحمن قاسمی، مفتی انور علی اعظمی، ڈاکٹر ظفر الاسلام صدیقی، مولانا بدر احمد مجیبی ندوی، مولانا عبد الشکور قاسمی، مفتی جنید احمد فلاحی اور مولانا ظفر عالم ندوی نے شرکت کی اور سبھی حضرات اکیڈمی کی کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کیا، اس میٹنگ میں عہدہ داروں کا انتخاب بھی ہونا تھا، چنانچہ صدر کی حیثیت سے حضرت مولانا نعمت اللہ اعظمی (استاذ دار العلوم دیوبند)، جنرل سکریٹری کی حیثیت سے مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کا انتخاب عمل میں آیا، اکیڈمی کے نائبین صدر مولانا عبد الاحد ازہری (مالیگاؤں)، مولانا بدر الحسن قاسمی (مقیم کویت) کو اپنے عہدوں پر برقرار رکھتے ہوئے مزید ایک نائب صدر کی حیثیت سے مولانا محمد سفیان قاسمی (مہتمم دار العلوم وقف دیوبند) کا انتخاب عمل میں آیا، جبکہ مولانا عبید اللہ اسعدی (باندہ)، مولانا عتیق احمد بستوی (لکھنؤ) کو سکریٹری کے عہدہ پر اور مفتی احمد دویولوی (گجرات) کو خازن کے عہدہ پر برقرار رکھا گیا۔

 

جاری کردہ

اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا

VIEW DETAILS
<b>بدلتے حالات کے تقاضے اور ہندوستانی مسلمان</b>

بدلتے حالات کے تقاضے اور ہندوستانی مسلمانکانفرنس ہال اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا, 29-30/06/2022

بدلتے حالات کے تقاضے اور ہندوستانی مسلمان

سماج میں انہیں قوموں کی پذیرائی ہوتی ہے جن میں سماج کو کچھ دینے کی صلاحیت ہو۔ پروفیسر اختر الواسع

برادران وطن سے خوشگوار تعلقات ہی موجودہ زہر کا تریاق ہے۔ پروفیسر محسن عثمانی ندوی

 

مورخہ: ۳۰/ جون ۲۰۲۲ء

اپنی ناکامیوں کا بار دوسروں کے کندھوں پر ڈالنا ٹھیک بات نہیں، دوسروں کو لعن طعن کرنے کے بجائے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے گریبان میں جھانکیں اور اپنی کوتاہیوں پر غور و فکر کرتے ہوئے بدلے ہوئے حالات اور تقاضوں کو پیش نظر رکھ کر خود میں تبدیلی لائیں، ان خیالات کا اظہار پروفیسر اختر الواسع نے "بدلتے حالات کے تقاضے اور ہندوستانی مسلمان" کے موضوع پر منعقد اسلامک فقہ اکیڈمی کے سمینار میں اپنے صدارتی خطاب میں کیا۔ انھوں نے کہا کہ سماج میں انہیں قوموں کی پذیرائی ہوتی ہے جن میں سماج و معاشرہ کو کچھ دینے کی صلاحیت ہو، مسلمان بھی اپنے آپ کو اس قابل بنائیں کہ ان کی ضرورت کو سماج و معاشرہ نظر انداز نہ کرسکے۔ مہمان خصوصی کی حیثیت سے خطاب کرتے ہوئے پروفیسر محسن عثمانی نے کہا کہ برادران وطن سے مذاکرات اور ڈائیلاگ وقت کی اہم ضرورت ہے، مسلمانوں کے لئے اس کے علاوہ اور کوئی چارہ کار نہیں۔ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی نے مہمان اعزازی کی حیثیت سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وقت اور حالات میں تبدیلی کے سبب فقہ و فتاوی میں بھی تبدیلی کی ضرورت ہے جو نئے زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو۔ جناب اسد مرزا نے مہمان اعزازی کی حیثیت سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مسلم قائدین کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے مسلکی اختلافات کو بھلاکر ایک متحدہ پلیٹ بنائیں اور سماجی زندگی سے متعلق مختلف میدانوں مثلاً قانون اور میڈیا کے میدان میں مرکزی و ریاستی یونٹ بنائیں جو بدلے ہوئے نئے حالات میں مسلمانوں کی رہنمائی کرسکیں۔ جامعہ ہمدرد اسلامک اسٹڈیز کے صدر شعبہ پروفیسر ارشد حسین نے مسلمانوں کو اپنے اخلاقیات کو بلند کرنے اور آپسی اتحاد پر زور دیا۔

افتتاحی نشست کی نظامت ڈاکٹر وارث مظہری نے کی، اور ڈاکٹر صفدر زبیر ندوی نے مہمانوں کا استقبال اور خیر مقدم کیا، جبکہ کلمات تشکر امتیاز احمد قاسمی نے پیش کیے۔

اس دو روزہ سمینار کی پہلی علمی نشست کی صدارت کرتے ہوئے پروفیسر اسحاق احمد فلاحی نے فرمایا کہ ہر دور میں ہندوستان کی تاریخ لکھی گئی ہے، مسلم دور حکومت میں، برطانوی عہد میں اور آزادی ئ ہند کے بعد بھی تاریخ لکھی گئی، لیکن اب ایک خاص نقطہئ نظر اور خاص سوچ و فکر کے دائرہ میں تاریخ لکھی جارہی ہے، مسلم تاریخ کو کھرچ کر پھینکنے اور نئی نسل میں اس تاریخ سے نفرت پیدا کرنے کی کوشش تیز ہورہی ہے، خواہ نصابی کتابوں میں ہو یا سڑکوں اور شہروں کے نام میں،پروفیسر فلاحی نے اپنی باتوں کو ڈاکٹر تارا چند اور آر پی ترپاٹھی کی تحریروں سے مدلل کیا۔ انہوں نے کہا کہ جمہوریت بہت قیمتی سرمایہ ہے، لیکن اس وقت اس کے لئے پاپولیزم بڑا خطرہ ہے، جذبات و ہیجان اور مذہبی تعصبات پیدا کرکے تعقل کے عمل کو مفلوج کرنے کی پوری کوشش ہورہی ہے۔ سمینار کی دوسری اور تیسری نشست کی صدارت ڈاکٹر ابرار احمد مکی نے کی، انہوں نے اپنے صدارتی خطاب میں فرمایا کہ بدلتے ہوئے حالات میں نہ صرف ہندوستانی مسلمانوں کے لئے بلکہ ان تمام ممالک کے مسلمان جہاں وہ اقلیت میں ہیں، انہیں اپنے اندر وحدت امت کا تصور قائم کرنا چاہئے، اپنے تشخص و امتیاز کو ہر میدان میں باقی رکھنا چاہئے اور جس ملک میں وہ رہتے ہیں اس ملک کے لئے اپنے آپ کو نافع بناکر پیش کرنا چاہئے۔ سمینار کی آخری اور اختتامی نشست کی صدارت کرتے ہوئے ملک کے معروف عالم و دانشور اور مصنف و ادیب پروفیسر محسن عثمانی نے ہندوستانی مسلمانوں کو بدلتے ہوئے حالات میں دعوت دین اور غیر مسلموں سے بہتر سے بہتر تعلقات قائم کرنے اور اس کو استوار کرنے پر زور دیا، ان حالات میں مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن ندوی کی تحریک ”پیام انسانیت“ کو تریاق اور اکسیر سے تعبیر کیا اور وقت کی One Point پروگرام قرار دیا، انہوں نے تعلیم پر بھی خصوصی توجہ دینے کا مشورہ دیا تاکہ حکمت کے ساتھ دعوت کا فریضہ انجام دیا جاسکے، اختتامی کلمات پیش کرتے ہوئے ڈاکٹر وارث مظہری نے کہا کہ مجموعی طور پر اس دو روزہ سمینار میں جو چیزیں چھائی رہیں وہ تعلیم، دعوت اور مسلم غیر مسلم تعلقات کو استوار کرنا ہے۔ سمینار میں مختلف محاور پر کل ۲۴ قیمتی مقالات پیش کئے گئے اور مناقشہ ہوا۔ ڈاکٹر فضل الرحمن، مفتی امتیاز احمد قاسمی اور ڈاکٹر صفدر زبیر ندوی نے مختلف نشستوں میں نظامت کے فرائض انجام دئے، جبکہ مہمانوں کا شکریہ ڈاکٹر شمیم اختر قاسمی نے ادا کیا۔

 

جاری کردہ

اسلامک فقہ اکیڈمی (انڈیا(

VIEW DETAILS
<b>اسلامو فوبیا اور علماء کی ذمہ داریاں</b>

اسلامو فوبیا اور علماء کی ذمہ داریاںکانفرنس ہال اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا, 05/06/2022

اسلام وہ مذہب ہے جس میں پوری دنیا کو ایک نظام حیات دینے کی قوت ہے- مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

مورخہ: ۵/جون ۲۰۲۲ء

اسلام ایک شجر سایہ دار ہے جو ہرا بھرا، اور پھول و پھل دینے کی صلاحیت رکھتا ہے، اور پتھر انہیں درختوں پر چلائے جاتے ہیں جو پھلدار ہوں، سوکھے درختوں پر ڈھیلے نہیں پھینکے جاتے، اس لئے روحانی و اخلاقی اقدار سے محروم مذہب مخالف طاقتیں اسلام کو نشانہ بناتی ہیں، اس سے گھبرانے کی ضرورت نہیں، ان خیالات کا اظہار حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی (جنرل سکریٹری اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا و جنرل سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ)نے اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کے زیر اہتمام "اسلامو فوبیا اور علماء کی ذمہ داریاں" کے عنوان پر منعقد محاضرہ میں کیا۔ مولانا رحمانی نے کہا مذہب بیزار طاقتیں بخوبی اس بات سے واقف ہیں کہ اسلام ہی واحد مذہب ہے جو اپنی معقول اور عدل واعتدال پر مبنی تعلیمات کے ذریعہ پوری دنیا کو ایک نظام حیات دینے کی قدرت رکھتا ہے۔ محاضر گرامی نے ان حالات سے نمٹنے اور مستشرقین اور برادران وطن کے ذریعہ اٹھائے جانے والے سوالات کا مسکت جواب دینے کے لیے اپنے اسلاف اور اکابر علماء کے طریقہ کار اور ان کی جہد و جہد کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ہر دور میں دشمنان اسلام نے اسلام اور اسلامی تعلیمات پر سوال اٹھائے ہیں اور علماء نے سوجھ بوجھ اور مناسب انداز میں ان کا جواب بھی دیا ہے۔ اسی طرح اس دور میں بھی علماء کی ذمہ داری ہے کہ نئے دور میں اٹھنے والے سوالات کو سنجیدگی سے سنیں اور مطالعہ کی روشنی میں ان کے مدلل جوابات دیں۔ مولانا رحمانی نے کہا کہ عصر حاضر میں ڈیبیٹ اور مناقشوں کے انداز و اسلوب بدل گئے ہیں، نئی ٹکنالوجی آگئی ہے، علماء کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان سے استفادہ کرتے ہوئے اسلام کے دفاع کا فریضہ انجام دیں، مدارس کے لئے ضروری ہے کہ وہ انگریزی اور ہندی زبان کی تعلیم پر توجہ دیں اور انفارمیشن ٹکنالوجی سے فائدہ اٹھانے کی طلبہئ مدارس کو تربیت دی جائے۔ مولانا نے مزید فرمایا کہ ہمیں موجودہ حالات سے ہرگز مایوس نہیں ہونا چاہئے، ہندوستان میں اس سے زیادہ مشکل حالات آچکے ہیں، 1857 اور 1947 کے حالات آج سے زیادہ خراب تھے، لیکن ہمارے اسلاف ثابت قدم رہے، آج بھی ضرورت ہے کہ ہم اپنے وجود اور اسلامی تشخص کو برقرار رکھنے کے لیے پوری محنت اور لگن سے کام کریں اور اپنے موقف پر ثابت قدم رہیں۔ اس موقع پر پروگرام کے مہمان خصوصی مولانا ابرار اصلاحی مکی صاحب نے بھی موضوع سے متعلق مختصر اظہار خیال کیا۔ ڈاکٹر صفدر زبیر ندوی نے محاضر محترم، مہمان خصوصی اور شرکاء کا استقبال کرتے ہوئے اکیڈمی کی خدمات پر مختصرا روشنی ڈالی۔ مفتی امتیاز احمد قاسمی نے نظامت کے فرائض انجام دیئے اور اخیر میں مفتی احمد نادر قاسمی نے شرکاء کا شکریہ ادا کیا، اس اہم پروگرام میں یونیورسٹیز کے اسکالرز، دہلی شہر سے آئے ہوئے علماء و دانشوران اور جامعہ نگر کے اہل علم اور ائمہ مساجد بڑی تعداد میں شریک ہوئے۔ مولانا رحمانی صاحب کی دعاء پر پروگرام اختتام پذیر ہوا۔

جاری کردہ

اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا

VIEW DETAILS
<b>فن حدیث میں ہندوستانی خواتین کی خدمات</b>

فن حدیث میں ہندوستانی خواتین کی خدماتکانفرنس ہال اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا, 31/03/2022

خواتین سے علم حاصل کرنا معیوب نہیں، بڑے بڑے محدثین نے خواتین سے روایت نقل کی ہے - ڈاکٹر محمد اکرم ندوی

 

مورخہ: ۳۱/مارچ ۲۰۲۲ء

اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا نے محاضرات کے سلسلہ کو آگے بڑھاتے ہوئے آج ایک اہم عنوان "فن حدیث میں ہندوستانی خواتین کی خدمات" کے موضوع پر محاضرہ کا انعقاد کیا جس میں ڈاکٹر محمد اکرم ندوی (ڈین کیمبرج اسلامک کالج، برطانیہ) نے اپنا قیمتی اور تفصیلی محاضرہ دیا، اس پروگرام کی صدارت مولانا عبد القادر عارفی (زاہدان، ایران) نے کی۔ محاضر گرامی نے کہا کہ معاشرہ کے غلط رواج کے سبب عورتوں کی آواز کے پردہ کو لازم قرار دے دیا گیا ہے جس کی وجہ سے عورتوں سے تعلیم حاصل کرنے کو معاشرہ میں معیوب سمجھا جاتا ہے جبکہ حقیقت ہے کہ دور صحابہ اور دور محدثین میں عورتوں سے تعلیم حاصل کرنا ثابت ہے، تاریخ پر نظر ڈالنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ بے شمار خواتین ایسی ہیں جن کا نام علم حدیث اور رواۃ حدیث کے ذیل میں آتا ہے اور جن سے بڑے بڑے محدثین نے علم حاصل کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے پاس بھی عورتیں حدیث کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے آیا کرتی تھیں اور یہ سلسلہ بعد کے ادوار یعنی شاہ عبد الغنی دہلوی وغیرہ کے یہاں بھی رائج تھا۔ موصوف نے خطاب کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ اگر تاریخ کے اوراق کھنگالے جائیں تو علم و فن کے دوسرے شعبوں کی طرح علم حدیث کے باب میں بھی خواتین کے بیش بہا کارنامے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ ان کی خدمات نظروں سے اوجھل ہیں، اور یہ اس لیے ہوا کہ فلسفہ کے غلبہ اور اس کے غلط نظریات کے سبب عورتوں کی تحقیر اور ان کی کم حیثیتی معاشرہ میں پھیلتی گئی جس کی وجہ سے عورتوں کی خدمات کو لائق اعتناء نہیں سمجھا گیا، اور ان سے صرف نظر کیا گیا۔ موصوف نے تاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہندوستان ہی نہیں بلکہ دوسری جگہوں کے قدیم مساجد کے اندر ایک حصہ عورتوں کے لیے مخصوص ہوتا تھا جن میں عورتیں تعلیم حاصل کیا کرتی تھیں، اس سے ثابت ہوا کہ خواتین ہر دور میں علوم شرعیہ کے ذیل میں اپنی خدمات انجام دیتی رہی ہیں۔ پروگرام کا افتتاح مولانا عدنان ندوی کی تلاوت کلام پاک سے ہوا، پروگرام کی نظامت کے فرائض ڈاکٹر صفدر زبیر ندوی نے انجام دیئے، اور مہمانوں کا تعارف بھی کرایا جبکہ مفتی امتیاز احمد قاسمی نے آنے والے مہمانوں اور حاضرین کا شکریہ ادا کیا۔ پروگرام میں یونیورسٹیز کے اساتذہ اور ریسرچ اسکالرس کے علاوہ دوسری اہم شخصیات نے شرکت کی۔

 

جاری کردہ

اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا

VIEW DETAILS
<b>علوم شرعیہ میں ہندوستانی خواتین کی خدمات</b>

علوم شرعیہ میں ہندوستانی خواتین کی خدماتکانفرنس ہال اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا, 31/03/2022

یک روزہ قومی سمینار

علوم شرعیہ میں ہندوستانی خواتین کی خدمات

 

مورخہ: ۳۱/مارچ ۲۰۲۲ء

اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کے سمینار ہال میں ایک یک روزہ قومی سمینار بعنوان "علوم شرعیہ میں ہندوستانی خواتین کی خدمات" کے موضوع پر منعقد ہوا۔ پروگرام کی صدارت مولانا محمد اکرم ندوی (ڈین کیمبرج اسلامک کالج، برطانیہ) نے کی، پروگرام میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے مولانا عبد القادر عارفی (زاہدان، ایران) نے شرکت کی، پروگرام کی نظامت ڈاکٹر مشتاق تجاروی (استاذ جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی) نے انجام دیئے جبکہ ڈاکٹر صفدر زبیر ندوی (انچارج شعبہ علمی اسلامک فقہ اکیڈمی، نئی دہلی) نے سمینار اور پروگرام کا تعارف پیش کیا۔ اس سمینار میں کل سات مقالے الگ الگ موضوعات پر پڑھے گئے۔ مہمان خصوصی کی حیثیت سے خطاب کرتے مولانا عبد القادر عارفی (زاہدان، ایران) نے کہا کہ ہم ایران میں بھی کوشاں ہیں کہ وہاں کے دینی مدارس میں خواتین کی تعلیم کا انتظام ہو جائے، کیونکہ خواتین مردوں سے الگ نہیں ہیں، بلکہ اگر تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو شروع سے وہ تعلیم کے علاوہ دوسرے میدانوں میں بھی مردوں کے شانہ بشانہ رہی ہیں اور ابتداء اسلام یعنی دور رسول اور دور صحابہ میں بھی ان کو تعلیم کے مواقع فراہم کیے گئے۔ مولانا محمد اکرم ندوی نے اپنے صدارتی خطاب میں مقالہ نگاران کی خامیوں کی نشاندہی کی اور خوبیوں کو سراہا۔ انھوں نے مدارس نسواں کے نصاب کی تبدیلی کے موضوع پر پیش کیے گئے ایک مقالہ پر گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ مدارس نسواں کے نصاب کا مردوں کے مدارس کے نصاب کے موافق ہونا کوئی بری بات نہیں ہے، البتہ اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ پورے نصاب میں تبدیلی کی جائے، چاہے وہ نصاب مردوں کے مدارس کا ہو یا پھر خواتین کے مدارس کا۔ جب جاکر ہم اس مایوس کن صورتحال کو دور کرسکتے ہیں جس کا اظہار اکثر مدارس کے طلبا اور طالبات کے ضمن میں کیا جاتا ہے۔ انھوں نے علوم و معارف میں خواتین کی خدمات پر تاریخی تناظر میں گفتگو کی اور کہا کہ تعلیم یافتہ خواتین کی تعداد اور ان کی تعلیمی خدمات بہت ہیں، البتہ خواتین کی خدمات اور تعلیمی میدان میں ان کے کردار کو چھپایا گیا اور اس سلسلہ میں اس قدر توجہ نہیں دی گئی جس طرح مردوں کو دی گئی۔ پروگرام میں ڈاکٹر قاسم عادل، ڈاکٹر قمر الدین، ڈاکٹر ظفیر الدین کے علاوہ یونیورسٹیز کے ریسرچ اسکالرس اور دوسری اہم شخصیات نے شرکت کی۔ اس سمینار میں ڈاکٹر محمد مشتاق تجاروی، ڈاکٹر ندیم السحر عنبری، رابعہ صفدر، ڈاکٹر انیس الرحمن قاسمی، ڈاکٹر منظر امام، ڈاکٹر محمد اجمل فاروق ندوی، مولاا عدنان احمد ندوی نے اپنے مقالات پیش کیے۔

 

جاری کردہ

اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا

VIEW DETAILS
<b>عالمی مذاہب اور نظام عفت و عصمت - ایک جائزہ</b>

عالمی مذاہب اور نظام عفت و عصمت - ایک جائزہکانفرنس ہال اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا, 26-27/03/2022

معاشرہ میں حیاء و پاکیزگی قائم رکھے کے لئے میثاق مدینہ جیسے میثاق کی آج بھی ضرورت ہے- مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

عفت و عصمت عالمی مذاہب کا مشترکہ اثاثہ - پروفیسر سعود عالم قاسمی

 

اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا اور فیکلٹی آف تھیالوجی اے ایم یو علی گڑھ کے اشتراک سے دو روزہ قومی سمینار اکیڈمی کے کانفرنس ہال، نئی دہلی میں "عالمی مذاہب اور نظام عفت و عصمت - ایک جائزہ" کے موضوع پر منعقد ہوا، جس میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ، جامعہ ہمدرد، دہلی یونیورسٹی اور جواہر لال یونیورسٹی کے پروفیسران اور اہم شخصیات نے شرکت کی۔ سمینار کی افتتاحی نشست مورخہ ۲۶/ مارچ شام سات بجے پروفیسر اختر الواسع کی صدارت میں منعقد ہوئی۔ جس میں خطاب کرتے ہوئے پروفیسر سعود عالم قاسمی نے کہا کہ: خواتین کی عفت و عصمت کا تصور نہ صرف یہ کہ اسلام میں ہے، بلکہ انبیاء سابقین کی تعلیمات میں بدرجہ اتم موجود ہے۔ چنانچہ اس تعلق سے محمدؐ کی بعثت سے قبل خواتین کی عصمت کے لئے حضرت مریم اور مردوں کی پاکدامنی اور عصمت کے لئے حضرت یوسف کو رول ماڈل کے طور پر دیکھا جاتا رہا ہے، اس اعتبار سے یہ مسئلہ کوئی نیا نہیں ہے، بلکہ عالمی مذاہب میں مشترکہ اثاثہ کے طور پر موجود ہے، نیز انھوں نے کہا کہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس پہلو کو انسانی سماج میں عام کرنے کی کوشش کریں۔ ممتاز فقیہ اور اسلامک فقہ اکیڈمی کے جنرل سکریٹری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب نے کہا کہ عفت و عصمت کے اس عنوان کو مذاہب اور سماج میں ”کلمہ سوا“ کے تناظر میں پیش کرنے کی کوشش ہماری ذمہ داری ہے، نیز انہوں نے کہا کہ معاشرہ میں حیاء و پاکیزگی قائم رکھے کے لئے میثاق مدینہ جیسے میثاق کی آج بھی ضرورت ہے۔ جناب سید طیب رضا نقوی (اے ایم یو) نے کہا کہ عفت و عصمت اور تزکیہ و پاکیزگی کو سماج اور معاشرہ میں پھیلانا تمام انبیاء کا مشن تھا، انہوں نے مزید کہا کہ اسلام میں شکل حجاب اصل نہیں ہے بلکہ مقصد حجاب اصل ہے۔ پروفیسر اختر الواسع صاحب نے اپنے صدارتی خطاب میں فرمایا کہ ہمیں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے، آج بھی ہندوستانی عدالتوں میں انصاف باقی ہے، ضرورت ہے کہ ہم معقولیت اور دلائل کے ساتھ اپنا موقف پیش کرنے کی کوشش کریں، اس لئے کہ عدالتیں اسی تناظر میں فیصلہ کرتی ہیں۔ انھوں نے رامائن کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہندو مذہب میں بھی پردے کا اس قدر رواج اور لزوم تھا کہ ساتھ میں رہتے ہوئے لچھمن جی نے اپنی بھابھی سیتا کا چہرہ تک بھی نہیں دیکھا تھا، اور نہ وہ ان کو پہچانتے تھے۔

اس دو روزہ سمینار کی اختتامی نشست ۲۷/ مارچ ۲۲۰۲ء تین بجے منعقد ہوئی جس میں پروفیسر محمد اسحاق فلاحی نے اپنا تاثر پیش کرتے ہوئے کہا کہ قرآن نے اخلاقی تعلیمات میں پوری انسانیت کو مخاطب کرتے ہوئے لباس تقوی اختیار کرنے کا حکم دیا ہے، ہمیں قرآن کے مطالعہ کی ضرورت ہے۔ پروفیسر عبید اللہ فہد فلاحی نے تمام مقالہ نگاران کی حوصلہ افزائی کی اور کہا کہ اسکالرس نے بہت اچھے موضوعات کا انتخاب کیا اور بہت محنت سے مقالہ تیار کیا، اچھے مقالات کی پہچان یہ ہے کہ اس پر خوب بحث و مباحثہ ہو۔ پروفیسر اقتدار محمد خان صاحب نے اس اہم علمی پروگرام کے انعقاد پر اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ ایسے پروگراموں میں دوسرے مذاہب کے رہنماؤں کو بھی مدعو کیا جانا چاہئے۔ معروف صحافی اسد مرزا صاحب نے موجود دور میں الکٹرانک میڈیا کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے ایسے مشترکہ اقدار پر مبنی پروگراموں میں دوسرے مذاہب کے اسکالرس کو بھی مدعو کرنے کا مشورہ دیا۔ مجلس کے اختتام پر پروفیسر سعود عالم قاسمی نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ حیاء تمام انبیاء کرام کی چار مشترکہ سنتوں میں سے ایک رہی ہے۔ اس اعتبار سے یہ ایک عالمی اور عالمی مذاہب کا مشترکہ اثاثہ قرار پاتا ہے۔

سمینار کی افتتاحی اور اختتامی کے علاوہ کل چھ نشستیں منعقد ہوئیں، تین آف لائن اور تین آن لائن، جن میں مجموعی طور پر ۵۵/ اہم اور قیمتی مقالات پیش کئے گئے۔ افتتاحی پروگرام کا آغاز مولانا ارمان قاسمی کی تلاوت کلام پاک سے ہوا، ڈاکٹر صفدر زبیر ندوی نے مہمانوں کا استقبال کیا، مفتی احمد نادر القاسمی نے پروگرام کی نظامت کی، مفتی امتیاز احمد قاسمی نے اسلامک فقہ اکیڈمی کی طرف سے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا جبکہ ڈاکٹر ندیم اشرف قاسمی اور ڈاکٹر ریحان اختر قاسمی نے ڈپارٹمنٹ آف تھیالوجی اے ایم یو کی طرف سے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔

جاری کردہ

اسلامک فقہ اکیڈمی (انڈیا)

VIEW DETAILS