دو روزہ قومی ورکشاپ ”قانون کی تعلیم اور فضلاء مدارس“ اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا , 29-30 July 2023
رپورٹ
دو روزہ قومی ورکشاپ
”قانون کی
تعلیم اور فضلاء مدارس“
مورخہ ۲۹-۳۰/جولائی ۲۰۲۳ء
افتتاحی نشست:
اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کے زیر اہتمام
دوروزہ قومی ورکشاپ بعنوان "قانون کی تعلیم اورفضلاء مدارس" اسلامک فقہ
اکیڈمی انڈیا، نئی دہلی کے سمینار ہال میں بروز ہفتہ، صبح دس بجے منعقد ہوا، اس
ورکشاپ کی افتتاحی اور اختتامی نشست کے علاوہ کل چھ نشستیں ہوئیں۔
افتتاحی نشست کی صدارت آل انڈیامسلم
پرسنل لاء بورڈ کے صدر اور اسلامک فقہ اکیڈمی کے جنرل سکریٹری حضرت مولانا خالد
سیف اللہ رحمانی صاحب نے فرمائی، حضرت مولانا عتیق احمد بستوی صاحب سکریٹری اکیڈمی
نے بطور مہمان ذی وقار شرکت کی، جبکہ مہمان خصوصی کی حیثیت سے سپریم کورٹ آف انڈیا
کے سینئر ایڈوکیٹ جناب ایم آر شمشاد صاحب نے شرکت کی۔
مولانا سلمان پٹیل ایڈوکیٹ نے تلاوت قرآن
سے اس نشست کا آغاز کیا، اکیڈمی کے رفیق مفتی امتیاز احمد قاسمی نے اس نشست کی
نظامت کی اور اس ورکشاپ کے انعقاد کے محرکات کیا تھے اس پر گفتگو کی، اسلامک فقہ
اکیڈمی کے شعبہ علمی کے انچارج ڈاکٹر صفدر زبیر ندوی نے مہمانوں کا استقبال کیا
اور اکیڈمی کا تعارف پیش کیا، اکیڈمی کے سکریٹری برائے علمی امور حضرت مولانا عتیق
احمد بستوی نے افتتاحی خطاب کیا، جس میں اس پروگرام کی اہمیت و نافعیت کا اظہار
کیا، انہوں نے یہ بھی کہا کہ علماء کے اس میدان میں قدم رکھنے اور آگے بڑھنے سے
معاشرہ پر اچھے اثرات مرتب ہوں گے، جناب ایم آر شمشاد صاحب نے اظہار خیال کرتے
ہوئے کہا کہ اسلامک فقہ اکیڈمی نے قانون کی اہمیت اورملک کے دستوری ڈھانچے
کومدنظررکھتے ہوے مدارس کے فضلاء کو اس سے جوڑنے کی کوشش کی ہے جو بہت اہم اور
بروقت قدم ہے، خاص طور سے اس طرح کے پروگرام کی ضرورت اوربڑھ جاتی ہے جب کوئی
قانون ملک میں نافذ ہوتاہے اورہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ اس کا غلط استعمال ہوا ہے
اور اس سے ناانصافی ہورہی ہے، اس وقت قانون کو پڑھنا اورسمجھنا بہت ضرورہوتاہے،
انھوں نے مزید کہا کہ دستور ہند ملک کی ڈائیورسٹی کے اعتبار سے بنایا گیا ہے، ایسا
نہیں ہے کہ دستور بناکر اس کو سماج پر چسپاں کر دیا گیا ہو، بلکہ ہندوستانی سماج
کے اعتبار سے ہی دستور مرتب کیا گیا ہے اور اس میں سماج کے ہر طبقہ، ہر خطہ، ہر
مذہب اور ہر رنگ و نسل کو جگہ دی گئی ہے اور دستور سازی میں اس کا پورا پورا لحاظ
رکھا گیا ہے۔
حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب
نے اپنے صدارتی خطاب میں فرمایا کہ علم وتحقیق کے میدان میں اس وقت فقہ اکیڈمی جس
نوعیت سے کام کررہی ہے، وہ اپنے آپ میں ممتاز حیثیت کی حامل ہے، اکیڈمی کاموضوع
فقہ ہے، اورفقہ کامطلب قانون ہے، اس اعتبار سے قانون سے اکیڈمی کا گہراربط ہے، یہ
پروگرام اس اعتبار سے رکھاہے کہ پہلے فضلاء مدارس میں ماڈرن لا ء پڑھنے کا رجحان
نہیں تھا، مگر اب اس میں مدارس کے بچوں کا رجحان بڑھا ہے، اس اعتبار سے بھی اس کی
ضرورت محسوس ہورہی تھی، قانون کے بارے میں صدر محترم نے کہا کہ اسلام کا موقف یہ
ہے کہ اللہ ہی کائنات کا خالق ہے اوروہی قانون بنانے کا حق رکھتاہے، اس لئے ہمارے
قانون کا اصل محور اللہ کی ذات ہے، انھوں نے کہا کہ ہم جس سماج میں رہتے ہیں اس کے
قوانین سے واقف ہونا ہمارے لیے بہت ضروری ہے، اور یہ بھی کہ قانون بنانے والا بھی
سماج سے اچھی طرح واقف ہو اور غیر جانبدار ہو، صدر محترم نے کہا کہ قانون کی بنیاد
علم و عدل ہے، اوردوسرے مساوات جیسا کہ میثاق مدینہ ہے، اوریہی کثیر قومی ملک میں ممکن ہے، او رہمارے
ملک کا جو قانون ہے وہ اسی مساوات اورعدل کو سامنے رکھ کربنایا گیاہے، گویا دستور
ہند ملک میں بسنے والے تمام قوموں کے لیے قدر مشترک ہے، اور اس پر ہندوستانی سماج
کا اتفاق بھی ہے اور سبھی کے لیے قابل قبول بھی، بشرطیکہ اسے انصاف کے ساتھ نافذ
کیاجائے۔
اس نشست کے اختتام پر اکیڈمی کے رفیق
مفتی احمد نادر قاسمی نے صدر مجلس، مہمانان گرامی اور تمام شرکاء کا شکریہ ادا
کیا۔
پہلی نشست:
اس دو روزہ ورکشاپ کی پہلی نشست صبح
11:00 تا 1:00/بجے منعقد ہوئی، اس نشست کا مرکزی موضوع "مذہبی آزادی اور قانونی تحفظات - خالص آئینی مسئلہ" تھا، اس نشست کی صدارت حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب نے
فرمائی، جبکہ نظامت کے فرائض مولانا امین اعظمی صاحب نے انجام دیے، اس نشست کے
محاضر جناب ایم آر شمشاد صاحب نے "مذہبی
آزادی کی قانونی ضمانت" اور "عدالتی نظیر اور بنیادی (ناگزیر) مذہبی رسومات کا تصور" کے موضوع پر اپنا فاضلانہ محاضرہ پیش کیا، انھوں نے کہا کہ مذہبی
آزادی کی بات ہے تو یہ ضروری نہیں کہ قانون بنے تبھی آزادی ہوگی، بلکہ کچھ ایسے
انسانی اختیارات ہیں جن کا قانون بننے اور نہ بننے سے کچھ فرق نہیں پڑتا ہے، وہ
بہت ہی بنیادی اختیارات و حقوق ہیں، قانون بننے اور دستور کے وجود میں آنے سے پہلے
بھی لوگ آزادی سے مذہبی رسومات ادا کرتے تھے اور آج بھی آزادی سے کرسکتے ہیں، لیکن
مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے کہ ان مذہبی رسومات کی ادائیگی اور پریکٹس میں کچھ ایسی
چیزیں ہوتی ہیں جن سے امن عامہ یا عام لوگوں یا ان کے حقوق متاثر ہوتے ہیں، بلکہ
بعض دفعہ پورا پورا سسٹم متاثر ہوجاتا ہے، پھر وہ معاملہ کورٹ تک پہنچتا ہے، وہاں
لاء اور قانون کی ضرورت پڑتی ہے، اس لئے اس کے ریگولیشن کے لئے قانون کی ضرورت
پڑتی ہے، چنانچہ اس سلسلہ میں ریگولیٹری پروویزن بنایا گیا اور اس میں بنیادی طور
پر تین چار چیزیں رکھی گئیں، محترم شمشاد صاحب نے اپنی گفتگو میں بہت سی عدالتی
نظیریں مختلف ہائی کورٹوں اور سپریم کورٹ کی پیش کیں جو شرکاء کے لئے نہایت دلچسپ
رہیں، محاضر محترم نے اپنے محاضرہ میں دستور ہند کے آرٹیکل ۲۵
اور ۲۶ پر تفصیلا روشنی ڈالی، انہوں نے تمام شرکاء کو مشورہ بھی دیا کہ
وہ آرٹیکل ۲۵، ۲۶ کو بہت گہرائی سے مطالعہ کریں اور اس سلسلہ میں جو قانونی مناقشہ
Constitutional Debate ہے جو پانچ
جلدوں میں ہے اسے بھی پڑھیں، محاضرہ کے اخیر میں مشارکین نے سوالات کیے جس کے تشفی
بخش جوابات انھوں نے دیئے۔
دوسری نشست:
دوسری نشست 1:00 تا 2:30 حضرت مولانا
عتیق احمد بستوی صاحب کی صدارت میں منعقد ہوئی، نظامت کے فرائض ایڈوکیٹ اجمل قاسمی
نے انجام دیئے، اس نشست کا پہلا محاضرہ "تبدیلی مذہب مخالف قانون" کے موضوع پر مولانا ابرار حسن ندوی نے پیش کیا، انھوں نے تبدیلی
مذہب قانون پر تفصیلی بحث کی، اور اس حوالہ سے جو مختلف قوانین پاس ہوئے ہیں اس پر
روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ۲۰۱۰ء میں لوجہاد اینگل شروع
ہوا، کیرالہ کے جج نے یہ معاملہ اٹھایا، ان کا ماننا تھا کہ کرسچن عورتوں کو
مسلمان لڑکے مسلمان بناکر شادی کر رہے ہیں، اسی طرح یوپی میں ۲۰۲۱ء میں آرڈیننس آیا، اتراکھنڈ اور ہماچل میں پہلے ہی یہ قوانین پاس
ہوچکے تھے، اسی طرح ۱۹۶۷ء میں اڑیسہ میں، ۱۹۷۲ء میں مدھیہ پردیس میں بھی
اس طرح کے قوانین پاس ہوچکے ہیں۔
اس نشست کا دوسرا محاضرہ "فضلاء مدارس اور قانون کی تعلیم - مسائل اور حل" کے موضوع پر ایڈوکیٹ نہال احمد ندوی نے پیش کیا، انھوں نے کہا کہ
لا ء کے میدان میں مدارس کے فارغین کو زیادہ سے زیادہ متوجہ کرنے اور اس فیلڈ کی
ضرورت و اہمیت کے پیش نظر فضلاء مدارس کو قانون کی تعلیم کی ترغیب دینے کی ضرورت
ہے، انھوں نے کہا کہ ہر انسان خصوصا مدارس کے طلبہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ ملک کے
دستور وقانون سے واقف ہوں کہ دستور ہند میں کیا کیا بنیای حقوق ملک کے باشندوں کو
دیئے گئے ہیں، اس سے واقف ہونا بہت ضروری ہے، انھوں نے مزید کہا کہ ایک بہتر سماج
کی تشکیل کے لیے زیادہ سے زیادہ قوانین سے واقف ہونا ضروری ہے، محاضر محترم نے
ہندوستانی یونیورسٹیز، نیشنل اسکول آف لاء اور پرائیوٹ لاء کالجز میں داخلہ لینے
اور لاء کی تعلیم حاصل کرنے کی طرف توجہ دلائی اور اس راہ میں جو مشکلات ہیں ان کے
حل کی راہ دکھائی، مثلاً دسویں اور بارہویں کی اسناد کو حاصل کرنا، انگریزی و ہندی
زبان پر عبور حاصل کرنا، صحیح رہنمائی اور گائڈنس لینا۔
اس نشست کے صدر حضرت مولانا عتیق احمد
بستوی نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ ہندوستان کے شمال مشرقی علاقوں میں عیسائیوں
کی اکثریت ہے، جہاں آج صورتحال بہت خطرناک ہے، تبدیلی مذہب سے متعلق ہندو تو شروع
ہی سے بے خوف رہے ہیں، لیکن آج اور زیادہ بے خوف ہوگئے ہیں، اگر ایمانداری سے
دیکھا جائے تو آج کل سراسر قانون کی خلاف ورزی ہورہی ہے، بنیادی حقوق کے خلاف
کوششیں ہورہی ہیں کہ سبھی کے لیے یکساں قانون سازی کی جائے جس کا مقصد واضح ہے کہ
اس قانون کا شکار عیسائی اور مسلمان ہوں گے، مولانا بستوی صاحب نے اس ورکشاپ کے
انعقاد پر اپنی خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ اس میدان میں علماء کے آنے سے مسائل
کا صحیح ادراک ہوگا اور مقدمات کی بہتر انداز میں پیروی ہوگی۔
تیسری نشست:
ورکشاپ کی تیسری نشست شام ۵ تا
۷/ بجے منعقد ہوئی جس کی نظامت مولانا نوید سیف حسامی صاحب نے کی، اس
نشست کا مرکزی موضوع "عائلی
قوانین اور قانونی ڈھانچہ (آئینی قوانین اور دستوری قوانین" تھا، جس پر سپریم کورٹ آف انڈیا کے ایڈوکیٹ جناب ناصر عزیز اور
جناب اسعد علوی صاحبان نے مندرجہ ذیل نکات پر گفتگو کی۔ "ہندوستان میں مختلف عائلی قوانین، رسم و رواج اور ان کی
قانونی حیثیت، شریعہ ایپلی کیشن ایکٹ ۱۹۳۷، انفساخ نکاح مسلم ایکٹ ۱۹۳۹، اسپیشل میرج ایکٹ ۱۹۵۴، ہندومیرج
ایکٹ ۱۹۵۵ اور ہندو پرسنل لاء سے متعلق دیگر قوانین" وغیرہ۔
ناصر عزیز صاحب نے گفتگو کرتے ہوئے کہا
کہ شریعت ایپلی کیشن ایکٹ ۱۹۳۷ء کا نفاذ صرف عائلی معاملات
میں ہوتے ہیں، یہ تین صفحات اور چھ شقوں پر مشتمل ہے، اس میں نکاح، طلاح، وراثت
اور وقف وغیرہ کے معاملات آتے ہیں، شریعت ایکٹ کے تحت فیصلے کرانے کے لئے آدمی کو
ایک ڈیکلریشن دینا ضروری ہوتا ہے، اور اگر کوئی چاہے تو نئے بنے ہندستانی قانون کے
مطابق اپنے فیصلے کراسکتا ہے، لیکن عام طور سے مسلمان شریعت کے مطابق ہی اپنے
فیصلے کراتے ہیں۔
قانون انفساخ نکاح مسلمین ۱۹۳۹ (Dissolution of Muslim Marriage) پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ شادی سوشل کنٹریکٹ ہے، شریعت ایکٹ سے سیکشن ۲ کو
وہاں سے ہٹاکر اسے ۱۹۳۹ میں ایک الگ سے مسلم میرج ایکٹ کے تحت شامل کردیا گیا، اس میں یہ
ہے کہ عورت کو یہ حق ہے کہ وہ عدالت کے ذریعہ بھی اپنے شوہر سے علاحدگی حاصل
کرسکتی ہے، اس میں سے ایک شوہر کا چار سال تک غائب ہونا ہے،۲-شوہر
دو سال سے خرچ نہیں دے رہا ہو، عدالت میں صرف دعوی نہیں بلکہ ثبوت بھی پیش کرنا
ہوگا، کیزویلٹی ظلم و تشدد کی بنیاد پر بھی علاحدگی ہوسکتی ہے۔
۳- شوہر کو اگر کسی جرم میں سات سال تک سزا ہوجائے تو اس کو بھی بنیاد بناکر
علاحدگی کراسکتی ہے۔
۴- اگر شوہر تین سال تک بیوی سے ہمبستری نہ کرے اور علاحدہ رہے تو اس کو بھی
بنیاد بناکر بیوی علاحدگی کی عدالت سے درخواست کرسکتی ہے۔
۵- مرد کے نا اہل ہونے کی بنیاد پر بھی علاحدگی کی درخواست دے سکتی ہے، اگر علاج
کے بعد صحیح ہوگیا ہو تو پھر وہ درخواست دے سکتی ہے۔
۶- اگر شوہر کو دو سال تک عقل میں خلل ہو، یا وہ جذام کے مرض
کا یا کسی خطرناک جنسی مرض کا شکار ہو تو پھر وہ درخواست دے سکتی ہے۔
۷- ۱۵ سال سے
پہلے ولی اگر اس کی شادی کردیتا ہے تو ۱۸ سال تک پہنچنے سے پہلے تک وہ علاحدگی کی
درخواست کرسکتی ہے۔
الف: اگر ذہنی طور پر ٹارچر کر رہا ہو۔
ب: شوہر آوارہ ہو یا بیوی کو غلط کام پر
ابھار رہا ہو۔
ج: اگر بیویوں کے درمیان مساوات نہ کرے۔
جناب اسعد علوی صاحب(ایڈوکیٹ) نے اظہار
خیال کرتے ہوئے کہا کہ اسپیشل میرج ایکٹ کے جو گراؤنڈز ہیں وہی مسلم میرج ایکٹ میں
بھی ہیں، مشارکین کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ آپ صرف نکاح و طلاق کے ایکٹ مت پڑھیں،
بلکہ اس کے علاوہ سائبر ایکٹ وغیرہ بھی پڑھیں۔
رسم و رواج کو کانسٹی ٹیوشنل حق نہیں
حاصل ہے، یہ پرسنل رسم قانونی دائرہ میں شامل نہیں ہے۔
نکاح و طلاح سے متعلق جو گراؤنڈ مسلم
ایکٹ میں ہیں وہی ہندو میرج ایکٹ اور اسپیشل میرج ایکٹ میں بھی ہیں۔
کسی جگہ پر ماموں بھانجی میں رسم کی
بنیاد پر شادی ہوتی ہے تو یہ چیز دوسرے مذہب میں غلط ہے تو پھر یکسانیت کی بات
کہنا صحیح نہیں ہے، اسی لئے ماہرین قانون کی رائے ہے کہ یونیفارم سول کوڈ
ہندوستانیوں کے لئے مفید اور سودمند نہیں ہے، بلکہ اس سے بہت سے قوانین متاثر ہوں
گے اور لوگوں کو حرج ہوگا۔
چوتھی نشست:
اس دو روزہ ورکشاپ کی چوتھی نشست جناب
ڈاکٹر عبد القدیر صاحب (چیئرمین شاہین گروپ) کی صدارت میں منعقد ہوئی، نظامت
مولانا محمد عبد اللہ ندوی نے خوبصورت انداز میں کی، یہ نشست شرکاء کے تبادلہ خیال
کے لئے منعقد کی گئی تھی، اس میں ان شرکاء نے حصہ لیا جنہوں نے لاء کی تعلیم مکمل
کرکے وکالت اور پریکٹس شروع کردی ہے، شرکاء نے مندرجہ ذیل تین نکات پر گفتگو کومرکوز
رکھا:
۱- فراغت کے بعد شعبہ قانون میں داخلہ لینے کا محرک اور سبب
کیا بنا؟
۲- قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے دوران پیش آنے والی مشکلات
(تعلیمی، مالی اور کالج میں پیش آنے والے واقعات)
۳- جو فضلاء قانون کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں یا جو آئندہ اس شعبہ میں آنے والے
ہیں ان کے لئے تجربات کی روشنی میں مفید مشورے۔
۲۶ شرکاء نے اپنے تجربات اور مفید مشورے پیش کئے،صدارتی خطاب
میں ڈاکٹر عبد القدیر صاحب نے اس پروگرام کی اہمیت اور افادیت کا اظہار کیا اور اس
پروگرام کاحصہ بنانے پر ذمہ داران اکیڈمی کا شکریہ ادا کیا، انہوں نے اس عزم کا
اعادہ بھی کیا کہ وہ جلد ہی فضلاء مدارس کے لئے دوسرے شعبہ جات کے ساتھ ساتھ قانون
کے شعبہ میں نمایاں کارکردگی کے لئے دہلی میں کوچنگ کا سلسلہ شروع کریں گے۔
پانچویں نشست:
دوسرے دن مورخہ ۳۰/جولائی ۲۰۲۳ء کی صبح ساڑھے نو تا گیارہ بجے ورکشاپ کی پانچویں نشست منعقد
ہوئی، جس کی نظامت مفتی امتیاز احمد قاسمی نے کی، اس نشست میں دو محاضرے الگ الگ
عنوانات پر ہوئے، سب سے پہلے حضرت مولانا عتیق احمد بستوی صاحب نے "یکساں سول کوڈ اور مختلف پرسنل لاء پر اس کے نقصانات" کے موضوع پر اظہار خیال کیا، اس کے بعد حضرت مولانا خالد سیف اللہ
رحمانی صاحب نے "اسلامی قانون کی
معنویت و اہمیت" کے موضوع
پر اپنا محاضرہ پیش کیا۔
حضرت مولانا عتیق احمد بستوی صاحب نے
اپنے محاضرہ میں فرمایا کہ دفعہ ۴۴ جس میں یکساں سول کوڈ کا
ذکر ہے، اس کو نافذ کرنے کی کوشش کانگریس نے بھی کی اور بی جے پی نے بھی، اس دفعہ
کو شامل کرنے کی کوشش اس وقت ہوئی جب ۳۰/ مارچ ۱۹۴۷ء میں ایک میٹنگ میں یہ زیر بحث آئی، محمد اسماعیل مرحوم نے ۵
نکاتی ترمیمات اس میں تبدیلی کے لئے پیش کیں، لیکن وہ منظور نہ ہوئیں، دفعہ ۳۵
میں ان ترمیمات کو شامل کرنے کی بات کہی گئی تھی، اس میٹنگ میں ڈاکٹر امبیڈکر نے
کہا کہ حکومت کے اختیارات محدود ہیں، لہٰذا اس کو شامل کرنے کی ضرورت نہیں ہے،
دفعہ ۲۵ اور ۴۴ میں کئی تضادات ہیں۔
مولانا نے آئین کے
مختلف دفعات کی تفصیلات بیان کیں جو خاص طور پر مسلمانوں سے متعلق ہیں، دار القضاء
کے ختم ہونے کے بعد رسوم و رواج کے مطابق فیصلے کئے جانے لگے، لیکن اس میں غلط
فیصلے کئے جانے لگے جو شریعت کے مطابق نہ تھے تو علماء اور مسلم ممبران پارلیمنٹ
نے ۱۹۳۷ء میں
شریعت ایپلی کیشن ایکٹ منظور کرایا، اور اس کی وجہ سے شریعت کو جو تحفظ حاصل ہے
اسے ہی آج کل ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
واضعین دستور نے دفعہ ۴۴ کو
شامل کرکے اقلیتوں پر ایک تلوار لٹکا دی اور آج پرسنل لا کو ختم کرکے یکساں سول
کوڈ کو لانے کی کوشش کی جارہی ہے، مولانا محترم نے مرحلہ وار مسلمانوں کے پرسنل
لاء کو ختم کرنے کے لئے پارلیمنٹ میں جو کوششیں ہوتی رہیں اس پر تفصیلی روشنی
ڈالی۔
"اسلامی قانون کی اہمیت و معنویت" کے موضوع پر اپنے
محاضرہ میں حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے فرمایا کہ آئندہ اگر کوئی اس
موضوع پر گفتگو ہو تو الہامی قانون اور وضعی قانون کے فرق کو اہمیت کے ساتھ بیان
کیا جائے، ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ مسلمانوں کا جو قانون ہے وہ انسانوں کے بنائے ہوئے
نہیں ہیں، بلکہ اللہ کے قوانین ہیں ان میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی ہے۔
اسلامی قانون کے مآخذ قرآن، سنت، اجماع و
قیاس وغیرہ ہیں، جبکہ دوسرے قوانین میں خود انسان کی عقل یا خواہش کو قانون کا
سرچشمہ مانا گیا ہے، ان میں قرآن و سنت ہیں جن میں کوئی تبدیلی نہیں کرسکتا، نہ
خواص نہ عوام، اور یہ جو اعتراض کیا جاتا ہے کہ متقدمین و متأخرین کے فتاوی و
اقوال میں اختلاف ہوتا رہا ہے تو یہ عرف و عادت کی بنیاد پر ہوتا ہے جس میں زمانہ
کے اعتبار سے تبدیلی ہوسکتی ہے، البتہ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے کوئی ایسا لفظ
استعمال کیا ہے جس کی وضاحت و تشریح نہیں کی گئی ہے تو ہر زمانہ کے فقہاء نے اس کو
اپنے زمانے کے حساب سے تطبیق دی، جیسے یہ آیت: واشہدوا ذوی عدل منکم، اسی طرح قبضہ
حسی اور قبضہ معنوی کا مسئلہ ہے، اگر کوئی نص قطعی الثبوت ہو تو اس میں تبدیلی
نہیں ہوسکتی، البتہ اس کی تشریح اور اطلاق و انطباق میں فرق ہوسکتا ہے، اسی طرح
کوئی نص ظنی الثبوت ہو تو اس میں احوال زمانہ کا اعتبار کیا ہے اور فقہاء کی آراء
میں اختلاف ہوجاتا ہے، اگر کسی نص میں کئی مفاہیم کا احتمال ہو تو اس میں حالات کے
اعتبار سے ترجیح کا اعتبار کیا جائے گا، اسلام میں کوئی قانون ایسا نہیں ہے جو
فطرت سے ہٹا ہوا ہو، اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لئے جو قانون بنایا ہے اس میں فطرت
کا پورا پورا لحاظ اور رعایت رکھی گئی ہے جیسے ہم جنسی کی شادی، زنا، سود وغیرہ۔
اللہ تعالیٰ نے اس
کائنات کو مساوات کے اصول پر نہیں بلکہ عدل کے اصول پر پیدا کیا ہے، عدل اصل ہے
اور مساوات اس کے تابع ہے، کبھی مساوات اور برابری میں عدل کا تقاضا ہوتا ہے، اس
وقت برابری بھی ضروری ہوگی، اور کبھی عدل کا تقاضا ہوتا ہے کہ تمام لوگوں پر
برابری کے ساتھ اس کا اطلاق نہیں کیا جائے بلکہ فرق کے ساتھ اس کو نافذ کیا جائے، ایسے
موقع پر شریعت مساوات کے بجائے عدل کا راستہ اختیار کرتی ہے۔
چھٹی نشست:
۱۱/ بجے تا
ساڑھے بارہ بجے دن ورکشاپ کی چھٹی نشست منعقد ہوئی، جس کی نظامت مفتی اسامہ ادریس
ندوی نے انجام دی، اس نشست میں دو محاضرے ہوئے:پہلا محاضرہ سپریم کورٹ آف انڈیا
میں ایڈوکیٹ آن ریکارڈ جناب فضیل ایوبی (ایڈوکیٹ) نے "نفرت انگیز بیانات سے متعلق قوانین اور
قانونی حل"
کے موضوع پر پیش کیا،جبکہ دوسرا محاضرہ ایڈوکیٹ زاہد اختر فلاحی نے "قانون کے طلبہ کے لئے LLB کی تکمیل کے بعد کیریئر کے مواقع" کے موضوع پر پیش کیا۔
جناب فضیل ایوبی ایڈوکیٹ نے کہا کہ ابھی
تک ہیٹ اسپیچ کی صحیح ڈیفینیشن نہیں آئی ہے، گؤ رکچھک کے قانون ساٹھ کی دہائی میں
بہت پہلے سے بنا ہوا ہے، خاص طور سے ساؤتھ میں، یہ الگ بات ہے کہ اس کا غلط
استعمال ہورہا ہے، سپریم کورٹ نے ہیٹ اسپیچ کے خلاف مختلف گائیڈ لائن بناکر ملک کے
صوبوں کو ہدایت دی ہے، یہ الگ بات ہے کہ ملک میں ان گائیڈ لائنس پر عمل در آمد
نہیں کیا جارہا ہے، دفعہ ۱۵۳، اور دفعہ ۲۹۵ اور ۲۹۸، ۵۰۵ اس سلسلہ میں ہیں، جس میں ہے کہ کسی مذہب کے خلاف یا کسی مذہبی
شخص کے خلاف ہیٹ اسپیچ کے ذریعہ کسی کے جذبات مجروح نہیں کئے جاسکتے ہیں، محترم
فضیل ایوبی نے ہیٹ اسپیچ دینے والے کے خلاف FIR کرنے کے طریقہ کار پر روشنی ڈالی۔
ایڈوکیٹ زاہد فلاحی نے اپنے محاضرہ میں
کہا کہ جو حضرات بھی ایڈوکیسی کرنا چاہتے ہیں انھیں محنت کرنا ہوگی اور انھیں پورے
لاء کو پڑھنا ہوگا، اور جس کی جو صلاحیت ہے وہ اسی سیکشن میں کوشش کرے، خواہ وہ
کرمنل لاء ہو یا سول لاء وغیرہ، قانون کے طلبہ کے لئے جو مواقع میسر ہیں اور جن
میدانوں میں وہ کام کرسکتے ہیں ان پر تفصیل سے روشنی ڈالی، آربٹریشن اور میڈیٹیشن
سیکشن میں ضلعی عدالت سے لے کر سپریم کورٹ تک میں اس پر کام کرسکتے ہیں۔
اس دو روزہ قومی ورکشاپ کے چھ کامیاب
بزنس سیشنس کے بعد ساڑھے بارہ تا دو بجے اختتامی نشست منعقد ہوئی جس کی صدارت حضرت
مولانا عتیق احمد بستوی صاحب نے فرمائی جبکہ نظامت کے فرائض مفتی احمد نادر قاسمی
نے انجام دیئے، اس نشست میں حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کے علاوہ جناب ڈاکٹر
قاسم رسول الیاس ترجمان آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ بھی شریک رہے۔
جناب ڈاکٹر قاسم رسول الیاس نے اختتامی
نشست میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اسلامک فقہ اکیڈمی قابل مبارکباد ہے کہ اس
نے اس طرح کا پروگرام رکھا، ہماری اپنی رائے ہے کہ بعض مسلم وکلاء خلاف شریعت
فیصلوں کے آنے میں معاون بنتے ہیں اور یہ صحیح نہیں، اس کی کئی مثالیں پیش کیں،
جیسا کہ آسام میں جسٹس بہاء الاسلام نے طلاق کے سلسلہ میں غلط فیصلہ دیا اور کہا
کہ تحکیم کے بغیر طلاق واقع نہیں ہوتی، اسی طرح ایک جج نے داڑھی اور مسجد کے تعلق
سے غلط فیصلہ دیا، ایک تو لاعلمی کی بنیاد پر اور کبھی تعبیر کی غلطی کی وجہ سے
غلط فیصلے ہوجاتے ہیں، بہرحال قابل مبارکباد ہیں آپ حضرات کہ آپ لوگ شریعت کو
سمجھتے ہیں، لہٰذا اس سلسلہ میں آپ حضرات جب فیصلے میں شامل ہوں گے تو صحیح فیصلے
آئیں گے۔
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب نے
اختتامی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مدارس کے فضلاء کے لئے اس طرح کے مختلف پروگرام
کئے جائیں اور ان میدانوں کی طرف رہنمائی کی جائے جو ملت و قوم کے لئے سود مند
ثابت ہوں اور وہ فضلاء وہاں سے نکل کر سماج کے لئے کام کرسکیں، آپ حضرات کے قانون
کے میدان میں آنے سے یہ فائدہ ہوگا کہ آپ ترجمان بھی ہمارے ہوں گے اور دماغ بھی،
اور دوسرے لوگ ترجمان تو ہمارے ہوتے ہیں لیکن ہمارے دماغ نہیں ہوتے۔
شرکاء کی طرف سے
ایڈوکیٹ نہال احمد ندوی نے تاثرات پیش کئے، انہوں نے اپنے تاثرات اور دلی جذبات کا
اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں پچاسوں کانفرنسوں اور پروگراموں میں شریک ہوچکا ہوں،
پیپر بھی پیش کئے اور خطاب بھی کیا اور کئی پروگراموں نے میرے دل پر نقوش چھوڑے
لیکن یہ پروگرام، اس کے موضوعات، اس کے محاضرین اور اس کے انتظام و انصرام نے سارے
نقوش مٹا دیئے اور اپنا نہیں مٹنے والا نقش قائم کردیا، انہوں نے اکیڈمی کے ذمہ
داروں سے خواہش کی کہ اس طرح کے پروگرامس مختلف ریاستوں میں منعقد کئے جائیں۔
اخیر میں حضرت مولانا عتیق احمد بستوی
صاحب نے اپنے صدارتی کلمات میں فرمایا کہ اس پروگرام کو دیکھنے کے بعد یہ اندازہ
ہوا کہ ہمارے مدارس کے بچے کن کن میدانوں میں خدمات انجام دے رہے ہیں، انہوں نے
شرکاء کو مشورہ دیتے ہوئے فرمایا کہ آپ سب مدارس اسلامیہ کے تربیت یافتہ ہیں، اس لئے
مدارس سے اپنی نسبت کو برقرار رکھیں اور اپنی اصل حیثیت کو ضرور یاد رکھیں، آپ
جہاں بھی جائیں اچھے اقدار اور اپنی شناخت کے ساتھ جائیں، ہمارا مقصد ”ان صلاتی و
نسکی و محیای و مماتی للرب االعالمین“ ہونا چاہئے، اس پیشہ میں جوخرابیاں در آئی
ہیں ان کو اپنی تعلیم اور تعلیمی ذخیرہ کی روشنی میں اور اس کو سامنے رکھتے ہوئے
ان خرابیوں سے بچنے اور ان کو درست کرنے کی کوشش کریں اور آپ اپنے کو اس طرح پیش
کیجئے کہ لوگ یہ سمجھیں کہ وکلاء بھی دیانتدار ہوتے ہیں، اور لوگ آپ سے قریب ہوں،
شریعت کے خلاف جو فیصلے ہوتے ہیں جیسے موجودہ حالات میں طلاق ثلاثہ کا مسئلہ ہے،
تو آپ حضرات ایسے فیصلوں کا شرعی اور قانونی تجزیہ کریں، اس وقت کوشش یہ ہورہی ہے
کہ مرد کے طلاق کا اختیار چھین لیا جائے، اورنگ آباد فیصلہ، آسام فیصلہ کو بنیاد
بناکر سپریم کورٹ نے شمیم آرا کیس میں اس کو مثال بنایا ہے، اور اس وقت صورت حال
یہ ہے کہ عورتیں بھی پریشان ہیں اور مرد حضرات بھی، لہٰذا آپ حضرات سے گزارش ہے کہ
آپ سماج کے مسلمانوں کو سمجھایئے اور یہ ماحول پیدا کیجئے کہ آپ لوگ کورٹوں میں مت
جائیں، بلکہ اپنے مسائل کو شریعت کے مطابق حل کرنے کی کوشش کریں، اسلام کے احکام میں
انسانیت کی نجات ہے، عورتوں کو مردوں کے برابر لانے کے نام پر اور آزادی دلانے کے
نام پر ہمارے یہاں قوانین بنائے جارہے ہیں جبکہ یہ خلاف فطرت ہے۔
اس موقع پر تمام شرکاء ورکشاپ کو سند
شرکت اور مومنٹوں پیش کرکے حوصلہ افزائی کی گئی۔ حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
صاحب کی دعاء پر یہ دو روزہ قومی ورکشاپ اختتام پذیر ہوا۔