ورکشاپ

<b>قانون کی تعلیم اور فضلاء مدارس</b>

قانون کی تعلیم اور فضلاء مدارسسمینار ہال، اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا, 29-30 July 2023

VIEW DETAILS
<b>تربیتی گائیڈ اور مستقبل کی منصوبہ بندی- آج کی ضرورت</b>

تربیتی گائیڈ اور مستقبل کی منصوبہ بندی- آج کی ضرورتالمعہد العالی الاسلامی، پٹنہ, 14-17 July 2023

VIEW DETAILS
<b>امام طاہر بن عاشور کا نظریہ مقاصد: ان کی کتابوں کی روشنی میں</b>

امام طاہر بن عاشور کا نظریہ مقاصد: ان کی کتابوں کی روشنی میںالمعہد العالی للدراسات الاسلامیہ، لکھنؤ, 18-12-2022

VIEW DETAILS
<b>امام شاطبی کے مقاصدی قواعد: الموافقات کے حوالے سے</b>

امام شاطبی کے مقاصدی قواعد: الموافقات کے حوالے سےسمینار ہال، اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا, 10-12-2022

VIEW DETAILS
<b>سہ روزہ تربیتی ورکشاپ (سمر کیمپ)</b>

سہ روزہ تربیتی ورکشاپ (سمر کیمپ)سری نگر، کشمیر, 19-21/09/2022

VIEW DETAILS
<b>نوازل فقہیۃ جدیدۃ و مناہج حلہا فی ضوء مقاصد الشریعۃ</b>

نوازل فقہیۃ جدیدۃ و مناہج حلہا فی ضوء مقاصد الشریعۃحیدرآباد, 07-09/12/2021

VIEW DETAILS
تربیتی کیمپ

تربیتی کیمپبھوپال, 17-19/09/2021

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

 اسلامک فقہ اکیڈمی (انڈیا)کا

سہ روزہ تربیتی کیمپ

باشتراک: دار العلوم علامہ عبدالحي حسنی ندوی، بھوپال (ایم پی(

 

دارالعلوم علامہ عبدالحي حسنی ندوی جنسی جہانگیر آباد بھوپال کے اشتراک سے اسلامک فقہ اکیڈمی (انڈیا) نئی دہلی کا ایک سہ روزہ تربیتی کیمپ مؤرخہ ۹۔۱۱/صفرالمظفر ۱۴۴۳ھ مطابق ۱۷۔۱۹/ ستمبر ء۲۰۲۱ کو سی ایس ایف سی ہوٹل،حمیدیہ روڈ،بھوپال میں منعقد ہوا، اس تربیتی کیمپ میں تقریبا ۸۰ طلبہ اور نوجوان فضلاء کی شرکت رہی، اور جس میں ہندستان کے مختلف علاقوں سے تشریف لائے علماء، دانشوران وماہرین نے اپنے محاضرات پیش کئے، افتتاحی اجلاس کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے:

 

افتتاحی نشست:

۱۷/ ستمبر ۲۰۲۱ء بروز جمعہ، بعد نماز مغرب (7:00 تا 9:30(

 

صدارت                          :           حضرت مولانا عبید اللہ اسعدی صاحب (سکریٹری اسلامک فقہ اکیڈمی، و شیخ الحدیث جامعہ عربیہ ہتھورا(

نظامت                      :        مولانا محمد یوسف صدیقی صاحب ندوی (استاذ دار العلوم علامہ عبد الحي حسنی ندوی بھوپال(

تلاوت                      :        وصی اللہ بن قاضی امان اللہ صاحب (متعلم دار العلوم علامہ عبد الحي حسنی ندوی بھوپال(

نعت پاک          :        محمد کیف ولد محمد ہاشم (متعلم دار العلوم علامہ عبد الحي حسنی ندوی بھوپال(

استقبالیہ کلمات               :        مولانا محمد محبوب خاں صاحب ندوی (مہتمم دار العلوم علامہ عبد الحي حسنی ندوی بھوپال(

ترحیب و تعارف اکیڈمی       :        مولانا صفدر زبیر ندوی (انچارج شعبہ علمی، اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا(

تعارف موضوع              :        حضرت مولانا مفتی جنید صاحب فلاحی (رکن اساسی اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا(

مہمان خصوصی               :        ۱- حضرت مولانا مفتی رحیم اللہ خان صاحب قاسمی (بانی و ناظم جامعہ فاروقیہ، سلوانی(

                                      ۲-پروفیسر عبد الشکور صاحب (سابق پرنسپل سیفیہ کالج، بھوپال(

خطاب                      :        حضرت مولانا سید مشتاق علی صاحب ندوی (قاضی شہر، بھوپال(

کلمات صدارت              :        حضرت مولانا عبید اللہ اسعدی صاحب (شیخ الحدیث جامعہ عربیہ ہتھورا(

کلمات تشکر                  :        مولانا محمد معاذ خان صاحب نعمانی ندوی (ناظم دار العلوم علامہ عبد الحي حسنی ندوی، بھوپال(

دارالعلوم علامہ عبدالحي حسنی ندوی بھوپال کے مہتمم مولانا محمد محبوب صاحب ندوی نے سب سے پہلے خطبہ استقبالیہ پیش کیا،آپ نے اپنے خطبہ میں شہر بھوپال کا تعارف کراتے ہوئے کہاکہ یہ ایک علمی شہر ہے، یہاں بڑے بڑے علماء، شعراء اور ادباء پیدا ہوئے ہیں، یہاں چودہ نوابوں نے حکومت کی ہے،جن میں چار بیگمات ہیں، نواب شاہ جہاں بیگم نے تاج المساجد کی تعمیر شروع کرائی، نواب سلطان جہاں بیگم کی علم دوستی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے علامہ شبلی کی شہرہ آفاق کتاب "سیرۃ النبیﷺ" کی اشاعت اول کا بیڑا اٹھا یا، اس کے علاوہ اور بھی بہت سی کتابوں کی اشاعت ان کے دور میں ہوئی، شہر بھوپال کی عظیم شخصیتوں میں حضرت شاہ محمد یعقوب صاحب مجددیؒ، حضرت مولانا محمد عمران خاں صاحب ندوی ازہریؒ، حضرت مولانا مفتی عبدالرزاق خاں صاحب قاسمیؒاور حضرت مولانا قاضی سید عابد علی وجدی الحسینی ؒ قابل ذکر ہیں۔

اس کے بعد اسلامک فقہ اکیڈمی کے شعبہ علمی کے انچارج مولانا صفدر زبیرندوی نے اکیڈمی کی جانب سے کلمات استقبالیہ پیش کیا، اکیڈمی کاتعارف کراتے ہوئے کہاکہ اکیڈمی اب تک ۲۸/ انٹرنیشنل فقہی سمینار کراچکی ہے، جن میں اب تک تقریباً ۱۴۰/ موضوعات زیر بحث آچکے ہیں، اسی طرح ۵۲/دوسرے علمی و فکری سمینارہوئے، اوراب تک ۳۱/ فقہی وتربیتی ورکشاپ ہوچکے ہیں۔اکیڈمی کے مقاصد میں فقہی مسائل کوحل کرنے کے علاوہ نوجوان فضلاء کو حالات حاضرہ سے واقف کرانابھی ہے۔مولانا موصوف نے ورکشاپ کے موضوعات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا

آج کا یہ سہ روزہ تربیتی ورکشاپ بھی اسی مقصد کے پیش نظر منعقد کیا گیا ہے، انشاء اللہ اس ورکشاپ میں متنوع موضوعات سے متعلق مختلف گوشوں پر محاضرات پیش کئے جائیں گے اور جن سے ہم سب یکساں طور پر مستفید ہوں گے۔ اس ورکشاپ کے لئے جن موضوعات کو محاضرات کے لئے متعین کیا گیا ہے وہ بہت ہی اہم ہیں، اور اس وقت کے تازہ موضوعات میں سے ہیں، بعض موضوعات نیشنل ہیں اور بعض انٹرنیشنل ہیں، مثلاً نیشنل موضوعات میں: مختلف مذاہب کے ساتھ ڈائیلاگ، بقائے باہم کی بنیادیں، ہندستانی مذاہب کے درمیان مشترکہ اقدار، اسلام میں وطن پرستی کا مفہوم، اجتماعی امن کے قیام میں دینی اداروں کا رول، اسی طرح انٹرنیشنل موضوعات میں: مسلم ممالک میں غیر سودی بینکاری کے تجربات، مسلم ممالک میں اجتماعی تکافل کے تجربات، دنیا کے اہم فکری ادارے منتخب کئے گئے ہیں؛ تاکہ دینی مدارس کے فضلاء اور عصری درسگاہوں کے نوجوان اسکالرز عمومی طور پر ان موضوعات سے واقف ہوسکیں۔

اس کے بعدحضرت مفتی جنیداحمد فلاحی صاحب(اندور) کاخطاب ہوا۔ آپ نے مفتی عبیداللہ اسعدی صاحب کے بارے میں فرمایا کہ ان کی اصول فقہ پر تحریر کردہ کتاب عالم عرب کے مدارس اوریونیورسٹیز میں پڑھائی جارہی ہے۔یہ ہماری خوش نصیبی ہے کہ آج وہ ہمارے درمیان موجود ہیں اورہماری سرپرستی فرمارہے ہیں۔ انھوں نے اپنے خطاب کو جاری رکھتے ہوئے اس تربیتی کیمپ کی آئندہ نشستوں میں پیش کئے جانے والے محاضروں کے تمام موضوعات کا تفصیلی تعارف کرایا، مولانا موصوف نے مزید کہا کہ آج ضرورت ہے کہ ہمارے نوجوان فضلاء ان علوم وتحقیقات سے بھرپور فائدہ اٹھائیں اوراس کے لئے اپنے آپ کوتیار کریں۔ جوآپ کے مزاج سے ہم آہنگ ہو،ان کتابوں کامطالعہ کریں۔ ان ہی مقاصدکے پیش نظر فقہ اکیڈمی سمینار اورتربیتی ورکشاپ منعقد کرتی ہے۔ تربیتی ورکشاپ کاایک مقصدیہ ہے کہ ایک موضوع پربات ہو،پھرسوالات کے جوابات دئے جائیں،تاکہ موضوع پرعلمی مواد فراہم ہو۔ اکیڈمی ہرطرح کے لوگوں کو جوڑنے کی کوشش کرتی ہے،لیکن وبائی مرض کوروناکی وجہ سے یہ پروگرام محدود سطح پرمنعقدکیاجارہاہے،مشارکین کی تعداد بھی محدود کردی گئی ہے،اس وجہ سے یہ پروگرام افادہئ عام کی غرض سے یوٹیوب پر براہ راست نشرکیاجارہاہے؛ تاکہ تمام وہ علماء وفضلاء اوردانشوران جو شریک مجلس نہیں ہیں،وہ بھی اس سے فائدہ اٹھاسکیں۔

اس کے بعد مفتی رحیم اللہ قاسمی صاحب، پروفیسرعبدالشکور صاحب، اور قاضی سیدمشتاق علی ندوی صاحب نے بھی اس اجلاس کو خطاب کیا اور اس کیمپ کے انعقاد پر دونوں اداروں اسلامک فقہ اکیڈمی اور دار العلوم علامہ عبد الحی حسنی ندوی کو مبارکباد دی، اور اس اہم تربیتی کیمپ کے لئے بھوپال شہر کا انتخاب کرنے پر دونوں اداروں کا شکریہ بھی ادا کیا۔

اس کے بعد اس اجلاس کے صدر حضرت مولانا محمد عبید اللہ اسعدی صاحب نے اپنے صدارتی کلمات میں اکیڈمی کے مقاصد پر تفصیل سے روشنی ڈالی اور کہا کہ اس کا ایک اہم مقصد شخصیت سازی اور افراد سازی بھی ہے، اور تربیتی پروگراموں اور ورکشاپوں کے ذ ریعہ نوجوان فضلاء اور علیا درجات کے طلبہ کی علمی، فقہی اور فکری تربیت کی جاتی ہے اور اس طرح علماء و فضلاء کی دوسری لائن تیار کی جاتی ہے، اور پھر آگے چل کر صدر محترم نے ریاست مدھیہ پردیش میں اس سے قبل ہونے والے اکیڈمی کے پروگراموں کا بھی تذکرہ کیا، اور اس تربیتی کیمپ کے انعقاد پر میزبان اداروں کے ذمہ داروں کو مبارکباد دی اور ان سب کے ساتھ ساتھ شرکاء کا بھی شکریہ ادا کیا۔

اور پھر اخیر میں ناظم دار العلوم جناب مولانا محمد معاذ خان نعمانی ندوی صاحب نے تما م مہمانوں اور شرکاء کا شکریہ ادا کیا،اورآخر وقت تک پروگرام کی ہر نشست میں شرکت کرنے اور مہمان محاضرین سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی درخواست کی۔ پھر صدر محترم کی دعا پر اس افتتاحی اجلاس کا اختتام ہوا۔

پہلی نشست

تربیتی کیمپ کی پہلی نشست ۱۸/ ستمبر بروز سنیچر صبح ۹/ بجے شروع ہوئی، جس کی صدارت مولانا محمد احمد خان صاحب(ناظم جامعہ اسلامیہ مسجدترجمہ والی بھوپال) نے فرمائی۔ نظامت کے فرائض دارالعلوم کے سینئراستاذمولانانعمت اللہ ندوی صاحب نے انجام دیئے۔

سب سے پہلے مفتی محمداشرف قاسمی (مہدپور،اجین)نے اپنا محاضرہ پیش کیا، جس کاعنوان ”اسلام میں وطن پرستی کامفہوم“تھا،آپ نے کہاکہ پرستی کالفظ درست نہیں ہے،اس لئے کہ پرستش اورعبادت غیراللہ کے لئے حرام ہے، مزید کہا کہ ضرورت ہے کہ ہم اسلام کے پیغام کو ساری دنیا میں عام کریں اوراپنے برادران وطن تک اسے پہنچانے کی کوشش کریں۔

دوسرا محاضرہ دارالعلوم علامہ عبدالحی کے سینئراستاد ادب مولانا ڈاکٹرشمس الدین ندوی نے پیش کیا۔آپ کے محاضرہ کا موضوع "ہندستانی سماج اور وطن پرستی" تھا، آپ نے اپنے محاضرہ میں مختصر اورمجمل انداز میں وطن سے محبت اور وطن پرستی کے مفہوم کو واضح کرنے کی کوشش کی۔ اس کے بعد سوال وجواب کاسیشن شروع ہوا، مشارکین نے بڑے اہم علمی وتحقیقی سوالات کئے،جن کا دونوں محاضرین نے تسلی بخش جواب دینے کی کوشش کی۔

صدر مجلس حضرت مولانا محمد احمد خان صاحب نے اپنے صدارتی خطاب میں فرمایا کہ اس وقت موجودہ حالات کو سمجھنے اور اس سے امت کو واقف کرانے کی سخت ضرورت ہے، اس وقت ہندوستان کے جو حالات ہیں ان حالات میں ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے پورے اسلامی وقار اور شعور کو زندہ کریں اور اللہ و رسول کے احکام کے مطابق زندگی گذارنے کی کوشش کریں۔

دوسری نشست

تربیتی ورکشاپ کی دوسری نشست صبح ساڑھے گیارہ بجے شروع ہوئی، جس کی صدارت بھوپال کے مفتی شہرمفتی محمدابوالکلام قاسمی نے فرمائی،نظامت کے فرائض مفتی محمدسلمان قاسمی (استاد دارالعلوم علامہ عبدالحي حسنی ندوی)نے انجام دیئے۔ سب سے پہلے دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ سے تشریف لائے مہمان مولانا کفیل احمد ندوی نے شرکاء سے خطاب فرمایا اور کہا کہ اسلامک فقہ اکیڈمی موجودہ زمانے کے فقہی مسائل کوحل کرنے کے ساتھ ساتھ نئی نسل کی تربیت کے لئے جوبھی خدمات انجام دے رہی ہے وہ لائق تحسین اورقابل مبارکباد ہیں، میرا قاضی مجاہدالاسلام قاسمی صاحبؒ سے زمانہ طالب علمی سے ہی تعلق ہے۔ مولانااقبال احمدصاحب ندوی (استاد دارالعلوم ندوۃ العلماء)نے فرمایا کہ اہل بھوپال مبارکباد کے مستحق ہیں کہ ان کے شہرمیں فقہ اکیڈمی کی جانب سے ایک تربیتی ورکشاپ کا انعقاد ہو رہا ہے،اس کی قدر دانی کی ضرورت ہے۔

اس کے بعد سب سے پہلے مولانا محمد یوسف صدیقی ندوی (استاد دارالعلوم علامہ عبدالحي حسنی ندوی) نے "برادران وطن سے تعلق اورشریعت اسلامی" کے عنوان سے اپنا محاضرہ پیش کیا۔ جس میں موصوف نے واضح کیا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کا کردار داعی کا اور برادران وطن کا مدعو کا ہے، لیکن اسے نبھانے میں احتیاط اور تیاری ضروری ہے اور اپنے نظام پر پختہ یقین بھی، یہ بھی لحاظ رہے کہ داعی مدعو کو متاثر کرتا ہے، اس سے خود متاثر نہیں ہوتا، اس میں برادران وطن سے جو گفتگو ہو وہ مناظرہ کی نوعیت کے بجائے مذاکرہ انداز کی ہونا چاہئے، کیونکہ مثبت نتائج مناظرہ سے نہیں مذاکرہ سے برآمد ہوتے ہیں۔ اس کے بعدمولانامحمدعمر صاحب(لیکچرر طبیہ کالج بھوپال) نے "ہندستانی مذاہب کے درمیان مشترکہ اقدار" کے موضوع پرتقریر کرتے ہوئے فرمایا کہ مشترکہ اقدار کے حوالے سے گفتگو اس لئے مفید اور نتیجہ خیز ثابت ہوسکتی ہے کہ اس سے جہاں باہم قربتیں پیدا ہوں گی وہیں ایک دوسرے کے نظریات کو سمجھا جاسکے گا اور حق واضح ہوگا تو اسے قبول کرنے کی راہیں ہموار ہوں گی۔ انھوں نے مشترکہ اقدار کے تین شعبوں پر تفصیل سے روشنی ڈالی، جن میں عقائد، عبادات اور اخلاق شامل ہیں جبکہ توحید، رسالت اور آخرت عقیدے کے جزو ہیں۔ اسی موضوع پر سینئرصحافی (ایڈیٹر روزنامہ "ندیم" بھوپال) جناب عارف عزیز صاحب نے "ہندوستانی مذاہب کے درمیان مشترکہ اقدار" پر روشنی ڈالتیہوئے کہا کہ یہاں کے جملہ مذاہب نے رواداری کی تعلیم دی ہے، ہندو مذہب میں تو حیرت انگیز طور پر غیر معمولی لچک کا مظاہرہ کرکے ہر مذہب کو برحق بتایا گیا ہے، جبکہ مسیحیت اور اسلام نے دیگر مذاہب کے احترام پر زور دیا ہے، اس طرح بقائے باہم کی اقدار سبھی کے یہاں قدرِ مشترک کے طور پر ملتی ہیں، یہی ہمارے ملک کی اصل طاقت ہے۔ اسلام کے بارے میں جو عناصر یہ کہتے ہیں وہ ہندوستان میں تلوار کے زور سے پھیلا انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ اسلام کو سب سے پہلے مسلم تاجر یہاں لے کر آئے اور صوفیائے کرام کی دلنشیں تعلیمات نے لوگوں کو متاثر کیا۔ لہٰذا وہ حلقہ اسلام میں داخل ہوتے گئے، سچی بات یہ ہے کہ مسلم حکمرانوں کی وجہ سے تو اسلام کی قبولیت کو نقصان پہنچا ہے۔ اس کے بعد مولانانعمت اللہ صاحب ندوی (سینئراستاد دارالعلوم علامہ عبدالحی حسنی ندوی) نے "اجتماعی امن کے قیام میں دینی اداروں کارول" کے زیر عنوان نہ صرف معاشرہ کے لئے امن کی ضرورت و اہمیت پر روشنی ڈالی بلکہ دینی ادارے بالخصوص مدارس اس بارے میں جو خدمت انجام دے رہے ان کا بھی جائزہ لے کر بتایا کہ اگر ہندوستان میں دینی مدارس نئی نسل کی تعلیم و تربیت کے ساتھ روحانیت و امن کا صور نہیں پھوکتے تو آج اس ملک کا جو حال ہوتا اس کا ہم تصور ہی کرسکتے، ہمارے علمائے کرام نے ان مدارس کے نمائندوں کی حیثیت سے ایک ایک بستی اور قریہ میں جاکر مسلمانوں کو جگایا اور ان کی اولاد کو دینی تعلیم کی طرف راغب کیا، جس کے نتیجہ میں آج ہماری نئی نسل دین و ایمان سے آراستہ نظر آتی ہے اور ملک میں اسلامی شعائر زندہ و تابندہ ہیں۔اس کے بعد سوال وجواب کا سیشن شروع ہوا۔شرکاء نے محاضرین سے جوبھی سوالات کئے،محاضرین نے بہت ہی خوش اسلوبی سے ان کے جوابات دیئے۔

اخیر میں صدر مجلس حضرت مولانا مفتی ابوالکلام قاسمی صاحب نے ورکشاپ کے موضوعات کے حوالے سے فرمایا کہ آج کے حالات میں جو مواقع یہاں موجود ہیں وہ کسی دوسرے ملک میں نہیں ہیں۔ عرب ممالک ہوں یا اسلامی ملک وہاں کا معاشرہ یک رنگا ہونے سے نہ زبان سے اور نہ عمل سے باہم ایک دوسرے کو متاثر کرنے کی گنجائش کم ہوتی ہے، اس کے برعکس ہندوستان کے مخلوط معاشرہ میں یہ دونوں پہلو موجود ہیں، جن سے ہم فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔ خاص طور پر اپنے عمل و کردار سے متاثر کرسکتے ہیں، لیکن یہ آج کے مسلمانوں کا مزاج نہیں رہا ہے، ہمارے دینی اداروں کوہی دیکھ لیں۔ اگر ان کے کھلے نظام سے یہاں کے لوگوں کو ہم متعارف کرائیں تو اس کے غیر معمولی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ کیونکہ انہیں کسی بھی دینی مدرسے میں جاکر وہاں کے تعلیمی نظام کو دیکھنے و سمجھنے کی آزادی ہے، یہاں جس طریقہ سے طلباء کی تربیت کی جاتی ہے اس کا نتیجہ ہے کہ یہ مدارس کبھی بھی ملک و قوم کے لئے مسئلہ نہیں بنے۔ دوسرے عصری اداروں میں جو تشدد اور نافرمانی نظر آتی ہے وہ بھی یہاں مقصود ہے۔ پورے ملک میں امن و امان کے قیام میں ان مدارس سے بہت کام لیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح ورکشاپ اور تربیتی پروگراموں سے مدارس کے اس کردار کو مزید نکھارا جاسکتا ہے۔ صدر محترم ہی کی دعاپر نشست کااختتام ہوا۔

تیسری نشست

۱۸/ ستمبر ۲۰۲۱ء کو بعدنماز عصر تیسری نشست ہوئی، جس کی صدارت مفتی جنید احمد فلاحی (رکن اساسی اسلامک فقہ اکیڈمی) نے کی اور نظامت کے فرائض مولانا صفدر زبیر ندوی نے انجام دیئے۔ اس نشست میں تربیتی کیمپ میں شریک ہونے والے نوجوان علماء و فضلاء کا باہمی تعارف ہوا، اس کے بعد شرکاء کے درمیان گروپ ڈسکشن کرایا گیا، شرکاء کے چار گروپ بنائے گئے اور ہر گروپ کو الگ الگ موضوع دیا گیا، جو مندرجہ ذیل ہیں:

ایک گروپ کو "الفرقان" کا نام دیا گیا، جس کے ڈسکشن کا موضوع "اجتماعی امن کے قیام میں دینی اداروں کا رول" تھا، دوسرے گروپ کا نام "الغازی" تھا، جسے ڈسکشن کے لئے "مدارس اسلامیہ میں تدریس و تربیت کا منہج" کا عنوان دیا گیا، تیسرے گروپ کا نام "الرفیق” رکھا گیا، جس کے لئے "جمہوری نظام میں بقائے باہم کی بنیادیں" کا موضوع منتخب کیا گیا، اور چوتھے گروپ کو "المجاہد" کا نام دیا گیا، جسے بحث کے لئے "ہندستانی مذاہب کے درمیان مشترکہ اقدار" کا عنوان دیا گیا۔ پھر تمام گروپ کے ذمہ داروں نے اپنے گروپ کے شرکاء کے ساتھ ڈسکشن کیا اور باہم تبادلہ خیالات کیا، اس کے بعد ہر گروپ کے نمائندوں نے اسٹیج پر آکر اپنے موضوع سے متعلق نکات و تجاویز شرکاء کے سامنے پیش کیں، اور پھر شرکاء نے خوب خوب استفسارات و سوالات کئے اور نمائندہ نے جواب دینے اور توجیہ پیش کرنے کی بھرپور کوشش کی، ڈسکشن اور تربیت کے اس طریقہ کار پر تمام شرکاء نے خوشی کا اظہار کیا۔

اخیر میں صدر مجلس مفتی جنید احمد فلاحی صاحب نے اپنے صدارتی خطا ب میں تربیت کے اس طریقہ کار کو سراہا اور کہا کہ اکیڈمی اسی طرح نوجوان فضلاء کی تربیت کرکے انھیں آگے بڑھانے کی کوشش اپنے پروگراموں اور ورکشاپوں کے ذریعہ کرتی رہتی ہے، یہ اس کے مقاصد میں شامل ہے، مفتی موصوف نے آئندہ اکیڈمی کے اس طرح کے پروگراموں اور ورکشاپوں میں شریک ہوکر خوب خوب استفادہ کرنے کی بھی شرکاء کو ترغیب دلائی۔

چوتھی نشست

تربیتی ورکشاپ کی چوتھی نشست ۱۸/ ستمبر بروز سنیچر بعد نماز مغرب شروع ہوئی، اس کی صدارت جناب مولاناتصور حسین فلاحی صاحب (مہتمم جامعہ اسلامیہ بنجاری مہو)نے کی، اور نظامت کے فرائض دار العلوم علامہ عبد الحی حسنی ندوی کے مہتمم مولانا محمد محبوب ندوی صاحب نے انجام دیئے۔ اس نشست میں جامعہ اسلامیہ بنجاری مہوکے استاد مولانا محمدغفران فلاحی نے اپنا محاضرہ "انٹرنیشنل علمی ادارے" کے عنوان سے پیش کیا، جس میں انہوں نے ہندستان اوربیرون ہند کے مدارس کاذکرکرتے ہوئے فرمایاکہ دارالعلوم دیوبند،دارالعلوم ندوۃ العلماء کے علاوہ یہاں کی بڑی دینی درسگاہوں نے دینی وعلمی لحاظ سے ایسے فضلاء تیارکئے ہیں جوموجودہ وقت کے تقاضوں کوسمجھتے ہوئے علمی ودینی خدمات میں ہمہ تن مصروف ہیں۔

اس کے بعد مفتی محمد ادریس فلاحی صاحب (استاذ حدیث و فقہ دار العلوم سیندھوا، بڑوانی) نے "سوشل میڈیا سے استفادہ کے طریقے" کے عنوان سے اپنا محاضرہ پیش کیا، جس میں انھوں نے سوشل میڈیا کے استعمال کے فوائد پر گفتگو کی، اور سوشل میڈیا اکاؤنٹ یا چینل کھولنے کے طریقے اور شرائط بتائے، اور سوشل میڈیا کو اپنے افکار و خیالات کو پھیلانے کا ایک تیز رفتار آلہ بتایا اور پھر شرکاء کو بھی سوشل میڈیا کے استعمال کی ترغیب دلائی۔

اس کے بعد سوال و جواب کا سلسلہ بھی شروع ہوا، اور شرکاء کے استفسارات کا جواب دیا گیا۔ آخر میں صدر مجلس مولانا تصور حسین فلاحی صاحب نے اپنے صدارتی کلمات میں اس کیمپ کے انعقاد پر دونوں اداروں کو مبارکباد دی، اپنی گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے اس مجلس میں پیش کئے جانے والے محاضروں کی تحسین فرمائی، اور اکیڈمی کی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے فضلاء کو اکیڈمی کی جانب سے ہونے والے اس طرح کے تربیتی پروگراموں میں شریک ہوکر اپنی صلاحیتوں کو نکھارنے کی ہدایت بھی کی۔ اور پھر اخیر میں ان ہی کی دعا پر اس مجلس کا اختتام ہوا۔

پانچویں نشست

تربیتی ورکشاپ کی پانچویں نشست ۱۹/ ستمبر بروز اتوار صبح ۸/ بجے شروع ہوئی، اس کی صدارت مولانامفتی رئیس احمد خانصاحب قاسمی (نائب مفتی شہر،بھوپال)نے فرمائی، اور مولانا محمد مشکور صاحب ندوی (استاد دار العلوم علامہ عبد الحی حسنی ندوی) نے اس کی نظامت کی۔ اس نشست میں ممبئی سے تشریف لائے ہوئے مہمان ڈاکٹرشارق نثارصاحب نے"مسلم ممالک میں غیرسودی بینک کاری (اسلامک بینکنگ اینڈ فائنانس)"کے عنوان پر اپنا محاضرہ پیش کرتے ہوئے اسلامی معاشی نظام اور موجودہ معاشی نظام کاتعارف پیش کیا، اورمختصرتاریخ بھی بتائی، نیز دونوں کے درمیان تقابلی جائزہ بھی انہوں نے شرکاء کے سامنے رکھا۔ ان سے شرکاء نے دل کھول کرسوالات کئے، جس کاانہوں نے اطمینان بخش جواب دیا۔اس محاضرے میں علماء وفضلاء کے علاوہ کالج ویونیورسٹیز کے طلباء بھی بڑی تعداد میں شریک ہوئے۔

اس کے بعد اسلامک فقہ اکیڈمی کے روح رواں وجنرل سکریٹری حضرت مولاناخالدسیف اللہ صاحب رحمانی نے شرکاء سے خطاب کیا، انھوں نے اپنے خطاب میں اسلامک فائنانس کی ضرورت واہمیت اور سودی نظام کے نقائص پرروشنی ڈالی،نیز انہوں نے شرکاء کے علمی وفقہی سوالات کے تسلی بخش جوابات بھی دیئے، اورطلباکو اس موضوع پرمختصر کتب کے مطالعے کی تلقین فرمائی۔ اور پھر اخیر میں اس مجلس کے صدر مفتی رئیس احمدقاسمی نے اپنے صدارتی خطاب میں فرمایاکہ وقت کی ضرورت کے حساب سے فقہ اکیڈمی اپنا کام بخوبی انجام دے رہی ہے۔ ہم لوگوں کوچاہئے کہ ایسے پروگراموں میں شرکت کریں اوراسے وسعت دیں؛ تاکہ آنے والی نسل ان مسائل سے واقف ہو۔ آخرمیں صدر مجلس کی دعا پر اس مجلس کااختتام ہوا۔

اختتامی نشست

تربیتی ورکشاپ کی اختتامی نشست ۱۹/ ستمبر بروز اتوار صبح ساڑھے ۱۱/ بجے شروع ہوئی، یہ نشست حضرت مولاناخالد سیف اللہ صاحب رحمانی کی صدارت میں منعقد ہوئی، نشست کی نظامت دار العلوم کے سینئر استاذ اور معتمد تعلیم مولانا ڈاکٹر شمس الدین صاحب ندوی نے انجام دی، اختتامی نشست کی تفصیلات درج ذیل ہیں:

 

اختتامی نشست

11:45 تا 2:00

 

صدارت           :        حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب (جنرل سکریٹری اسلامک فقہ اکیڈمی، نئی دہلی)

نظامت             :        مولانا ڈاکٹر شمس الدین صاحب ندوی (استاذ دار العلوم علامہ عبد الحي حسنی ندوی، بھوپال)

محاضرہ دہم         :        مختلف مذاہب کے ساتھ ڈائیلاگ

محاضر گرامی        :        جناب مولانا ڈاکٹر حمید اللہ صاحب ندوی (سابق پروفیسر برکت اللہ یونیورسٹی، بھوپال)

اظہار خیال         :        جناب مولانا مفتی محمد توصیف احمد صاحب قاسمی

اختتامی کلمات         :           حضرت مولانا عتیق احمد بستوی صاحب (سکریٹری اسلامک فقہ اکیڈمی، استاذ دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ)

تأثرات             :        ۱-مولانا محمد عمر صاحب (لکچرر طبیہ کالج، بھوپال)

                             ۲-مولانا محمد سلیم گنوری ندوی صاحب (ناظم دار العلوم ابوالحسن، برہانپور)

تقسیم اسناد          :

کلمات صدارت    :        حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب (جنرل سکریٹری اسلامک فقہ اکیڈمی، انڈیا، دہلی)

کلمات تشکر         :        مولانا محمد معاذ خان صاحب نعمانی ندوی (ناظم دار العلوم علامہ عبد الحي حسنی ندوی، بھوپال)

دعا                 :        حضرت مولانا احمد سعید خانصاحب ندوی

اس نشست میں ڈاکٹر حمید اللہ ندوی صاحب (سابق پروفیسر برکت اللہ یونیورسٹی بھوپال) نے "مختلف مذاہب کے ساتھ ڈائیلاگ" کے موضوع پر اپنا محاضرہ پیش کیا، اور تمام مذاہب و ادیان کے ساتھ ڈائیلاگ کا تقابلی جائزہ لیا، اسی طرح مولانا توصیف احمد قاسمی نے بھی اسی موضوع سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ اس کے بعد مولانا محمد عمر صاحب (لکچرر طبیہ کالج بھوپال)، مولانا محمد سلیم گنوری ندوی (ناظم دار العلوم ابو الحسن، برہانپور) نے اس تربیتی ورکشاپ سے متعلق اپنے تاثرات کا اظہار کیا، اس کے بعد اختتامی کلمات کے لئے حضرت مولانا عتیق احمد بستوی صاحب (سکریٹری اسلامک فقہ اکیڈمی) کو دعوت دی گئی، انھوں نے حالات حاضرہ کی روشنی میں بہت ہی پُرمغز خطاب کیا، اور موجودہ حالات میں فضلاء مدارس کو جو کرنے کے کام ہیں ان پر روشنی ڈالی۔ پھر صدر محترم حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب نے اپنے صدارتی کلمات میں استنباط احکام کے اصولوں پر روشنی ڈالی، اور علماء کو اپنے فتاوی میں ان اصولوں کو برتنے اور ان کو پیش نظر رکھنے کی تاکید فرمائی۔ آخر میں صدر محترم کی دعا پر جلسہ کا اختتام ہوا۔

اکیڈمی نے شرکاء کے درمیان کتاب "جدید مسائل اور فقہ اکیڈمی کے فیصلے" اور کتابچہ "اکیڈمی کا تعارف اور کارکردگی" کی تقسیم کے ساتھ ساتھ انھیں سند مشارکت سے بھی سرفراز کیا۔

٭٭٭

VIEW DETAILS
<b>چہار روزہ تربیتی ورکشاپ (سمرکیمپ)</b>

چہار روزہ تربیتی ورکشاپ (سمرکیمپ)المعہد العالی للتدریب فی القضاء و الافتاء، پٹنہ, 13-16/09/2021

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

اسلامک فقہ اکیڈمی(انڈیا) کا

چہار روزہ تربیتی کیمپ

باشتراک: المعہد العالی للتدریب فی القضاء والافتاء،پٹنہ (بہار(

۵۔۸/صفر المظفر۱۴۴۳ھ مطابق۱۳۔۱۶/ستمبر  ۲۰۲۱ء

 

          اسلامک فقہ اکیڈمی(انڈیا)نئی دہلی کے زیر اہتمام المعہد العالی للتدریب فی القضاء والافتاء،امارت شرعیہ پھلواری شریف،پٹنہ میں چار روزہ تربیتی ورک شاپ (سمر کیمپ)کا انعقاد کیا گیا جس میں مختلف عناوین پر کئی نشستوں میں ملک کے ماہرین نے اپنا قیمتی محاضرہ پیش کیا۔اس کا افتتاحی اجلاس مورخہ ۱۳/ ستمبر ۲۰۲۱ ء کی صبح کوزیرصدارت حضرت مولانابدراحمدمجیبی صاحب (رکن تاسیسی اسلامک فقہ اکیڈمی وصدر مدرس المعہدالعالی،پٹنہ) منعقد ہوا، مہمان خصوصی کے طورپر اسلامک فقہ اکیڈمی کے شعبہ علمی کے انچارج جناب مولاناصفدرزبیرندوی نے شرکت فرمائی، انہوں نے اپنے افتتاحی کلمات میں ورکشاپ کے مقاصد پرتفصیلی روشنی ڈالی اورکہا: اس ورکشاپ کیلئے جن موضوعات کو محاضرات کیلئے متعین کیا گیا ہے وہ بہت ہی اہم ہیں اور اس وقت کے تازہ موضوعات میں سے ہیں، بعض موضوعات نیشنل اور بعض انٹر نیشنل ہیں، مثلا نیشنل موضوعات میں: مختلف مذاہب کے ساتھ ڈائیلاگ، بقائے باہم کی بنیادیں،ہندستانی مذاہب کے درمیان مشترکہ اقدار، اسلام میں وطن پرستی کا مفہوم،اجتماعی امن کے قیام میں دینی اداروں کے رول، اسی طرح انٹر نیشنل موضوعات میں: مسلم ممالک میں غیر سودی بنکاری کے تجربات،مسلم ممالک میں اجتماعی تکافل کے تجربات، دنیاکے اہم فکری ادارے منتخب کئے گئے ہیں؛تاکہ دینی مدارس کے فضلاء اور عصری درسگاہوں کے نوجوان اسکالرز عمومی طور پر ان موضوعات سے واقف ہوسکیں۔امارت شرعیہ پٹنہ ایک ایساادارہ ہے جس کانام صرف ہندستان میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیامیں بہت ہی عزت واحترام سے لیاجاتاہے،خشت اول رکھنے والوں میں مفکراسلام حضرت مولاناابوالمحاسن محمد سجاد رحمہ اللہ کے ساتھ جوحضرات بھی شریک رہے ان سب کے خلوص کاثمرہ ہے اوران کے دلوں سے پھوٹنے والی شعاعیں ہیں جن کی کرنیں صرف بہارہی نہیں بلکہ پورے ملک پرپڑرہی ہیں،خواہ وہ جمعیۃ علماء ہو،یامسلم پرسنل لابورڈ،خواہ اسلامک فقہ اکیڈمی کی شکل میں ہو،خواہ آل انڈیاملی کونسل کی شکل میں۔ مسلم امت کے تئیں ان کی درد مندی کو دیکھتے ہوئے مولاناابوالمحاسن رحمہ اللہ کے لئے جس نے بھی یہ شعر کہابالکل سچ کہاکہ:

          پھونک کراپنے آشیانے کو                 بخش دی روشنی زمانے کو

          واقعی اس روشنی سے تقریباًدس دہائیوں سے ایک زمانہ مستفید ہورہاہے،ان کی خدمات وسرگرمیاں بھی جگ ظاہر ہیں اور ملک ہی نہیں بلکہ بعض بیرون ملک میں بھی افتاء وقضا ء اوردیگر امورشرعی کے جوادارے کام کررہے ہیں وہ بہارمیں واقع اسی امارت شرعیہ پٹنہ کاچربہ ہیں اوراسی کاپرتوہیں چاہے اسے کوئی نام دے دیاجائے،ساتھ ہی انہوں نے اسلامک فقہ اکیڈمی،امارت شرعیہ اورالمعہدالعالی کے تعلقات پربھی روشنی ڈالی اورکہا: حقیقت تویہ ہے کہ اسلامک فقہ اکیڈمی (انڈیا)امارت شرعیہ کے کوکھ سے ہی نکلی ہوئی ہے؛ جسے حضرت قاضی مجاہدالاسلام قاسمی رحمہ اللہ نے وجود بخشا اوراس کی پرورش وپرداخت کرکے اسے ایک تناور درخت کی شکل دے دی،اورقاضی صاحب کی محنتوں اورلگن کانتیجہ ہے کہ اکیڈمی اپنے اغراض ومقاصد کوپیش نظررکھتے ہوئے الحمدللہ ترقی وتقدم کی راہ پرگامزن ہے،اورامارت شرعیہ اورالمعہدالعالی کے تعاون واشتراک سے یہاں اب تک۱۱ /پروگرام ہوچکے ہیں۔

          مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی صاحب نائب ناظم امارت شرعیہ نے اپنے خطاب میں فرمایاکہ امارت شرعیہ، المعہدالعالی اورفقہ اکیڈمی کارشتہ ایک دوسرے سے اتنا گہراہے کہ ایک کودوسرے سے الگ نہیں کیاجاسکتا،مفتی صاحب نے فقہ اکیڈمی کے قیام پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایاکہ قاضی مجاہدالاسلام قاسمی رحمہ اللہ نے مدارس کے اساتذہ وعلماء کوفقہی عنوان پر مقالات لکھنے کی طرف ترغیب دلائی اورانہیں اس پر آمادہ فرمایا،نوجوان فضلائے مدارس کی ایک ٹیم تیار فرمائی جوآج مختلف فقہی عناوین پر اپنے مقالات مدلل لکھ رہے ہیں۔حضرت مولانانور الحق رحمانی (سینئر استاذالمعہدالعالی) نے اپنے خطاب میں فرمایاکہ المعہدالعالی اور فقہ اکیڈمی اللہ کی نعمت ہیں،طلبہ سے فرمایا: اپنے اندر اخلاص وللہیت پیداکریں،اپنے آپ کوکام میں لگائیں،کام کوبوجھ نہ سمجھیں، جوذمہ داری دی جائے اسے پوراکرنے کی کوشش کریں،آگے بڑھنے اورترقی کرنے میں مددملے گی،آپ ہمیشہ فائدہ اٹھاتے رہیں،بڑے بڑے صاحب علم اوراصحا ب فن یہاں آپ کومیسر ہوں گے۔ پروگرام میں مفتی امتیاز عالم قاسمی(استاذالمعہدالعالی) نے بھی خطاب فرمایا۔پروگرام کی نظامت جناب مولاناعبدالباسط ندوی صاحب نے فرمائی،فقہ اکیڈمی اورالمعہدالعالی کے تعلقات پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایاکہ مختلف مواقع پر فقہ اکیڈمی نے المعہدالعالی کوپروگرام کرنے کاموقع دیاہے؛ تاکہ ہمارے طلبہ کازیادہ سے زیادہ علمی فائدہ ہوسکے،آپ نے مہمان اورمقررین کاتعارف پیش فرمایا اورالمعہدالعالی کے اشتراک سے پروگراموں کے انعقاد پر اکیڈمی کاشکریہ اداکیا،پروگرام کااختتام حضرت مولانابدر احمد مجیبی صاحب کی دعاء پر ہوا۔

          اس چار روزہ تربیتی ورک شاپ کی پہلی نشست میں مولانا عبد الباسط ندوی (سکریٹری المعہد العالی)نے محاضر مہمانوں اور شرکاء کا استقبال کیااور مہمانوں کی خدمات کا تعارف کراتے ہوئے اس نشست کی نظامت کے فرائض بھی انجام دیئے،اس نشست میں دو عنوانات پر محاضرے پیش کئے گئے۔پہلا محاضرہ شانتی سندیش کیندر کے جنرل سکریٹری مولانا عبد الماجد قاسمی نے ”ہندوستانی مذاہب کے درمیان مشترکہ اقدار“کے عنوان پر پیش کیا جس میں انہوں نے بتایا کہ ہندوستانی قوم اور اس کی تہذیب دنیا کی قدیم ترین قوم و تہذیب مانی جاتی ہے،ان لوگوں کا مذہب ودھرم سے گہرا تعلق رہا ہے، دھرم کے معنی دین کے ہیں،اس کی بنیاد ہر زمانہ میں ایک ہی رہی ہے،جیسے:توحید، رسالت اور آخرت،انہوں نے تقابلی لحاظ سے کچھ شواہد بھی پیش کرکے بتایا، مثلا:توحید کے بارے میں اتھروید میں ہے:”وہ ایشور ایک ہے اور حقیقت میں وہ ایک ہی ہے،صرف اس ایک کے آگے ہی سر جھکاؤ“۔یہی بات قرآن میں بھی ہے:”آپ کہہ دیجئے: وہ اللہ ایک ہے،میرے سوا کوئی معبود نہیں،میری ہی عبادت کرو“،ایشور،خدا،GOD،اللہ سب ایک ہی ہے،بس نام الگ الگ ہیں،جیسے:جل،پانی،واٹر،اسی طرح آخرت کے بارے میں رگ ویدمیں ہے:وہ اکیلے ہوکر بھی مختلف ناموں سے جانا جاتاہے،سب لوگوں کو آخر میں اسی کی طرف لوٹنا ہے“،اور جسے قرآن میں:انا للہ وانا الیہ راجعون“کہا گیا،اور آپ کی رسالت کا تذکرہ تو موجودہ بائبل سے زیادہ ویدوں میں موجود ہے،جیسے: ”نراشنس“ ہے، اس کا معنی وہی ہے جو محمد ﷺ کا ہے یعنی تعریف کیا ہوا۔

          دوسرے محاضر کی حیثیت سے مولانا ڈکٹر شاہ تقی الدین فردوسی ندوی (سابق پروفیسر جدہ کالج سعودیہ عربیہ) نے ”اسلام میں وطن پرستی کا مفہوم“پر اپنا پر مغز محاضرہ پیش کیا۔انہوں نے پہلے وطن پرستی کا تاریخی جائزہ لیتے ہوئے بتایاکہ جب یورپ کا صنعتی انقلاب اور سرحدوں کا بٹوارہ آج سے ساڑھے تین سو سال قبل ہوا اس وقت سے یہ وطن پرستی کا نظریہ شروع ہوا اور یہ مصنوعی فاصلہ قوم پرستی کی بنیاد بنی جس سے انسانی گروہ انسانی گروہ سے الگ ہونے لگے ورنہ اس سے قبل ہر جگہ اجتماعی معاشرہ تھا۔ انہوں نے عربوں میں قوم پرستی کی تاریخ سے روشناس کراتے ہوئے بتایا کہ ۱۹۱۶ء سے یہ مرض ان کو بھی لاحق ہوگیا،جس کے کئی اسباب ہیں۔

          وہ کہتے ہیں کہ وطن اور اس کی مٹی سے انسیت فطری ولازمی عمل ہے جو نہایت شریفانہ جذبہ ہے اور اسلام نے اس کی اجازت دی ہے، مگر اس کے کچھ اصول وضوابط بھی بیان کئے ہیں کہ قومیت مذہب اسلام کی بنیاد پر ہو نہ کہ علاقائی جغرافیہ پر،اگر ہمارا وطن ہوسکتا ہے تو وہ اسلام ہے۔چین وعرب ہمارا،ہندوستاں ہمارا__مسلم ہیں ہم، وطن ہے سارا جہاں ہمارا۔

          اسلام وطن کی محبت کو تسلیم کرتا ہے،چنانچہ رسول اللہﷺ  ہجرت کے بعد اکثر مکہ مکرمہ کو یاد کرتے، یہی حال صحابہ کابھی تھا،لیکن اس کو تفریق وانتشار اور بغض و عداوت کا سبب بنالیناکہ ہر کمی کوتاہی سے صرف نظر کرکے بس اسی کا گن گانا اوردوسرے کو اپنا دشمن سمجھنے لگنا یہ غلط ہے، اسی وجہ سے وطن پرستی کو شرک کا چور دروازہ کہا گیا ہے،اور آپﷺ نے فرمایا:کسی عربی شخص کو عجمی پر کوئی فضیلت و فوقیت نہیں ہے، اور نہ ہی عجمی کو عربی پر فوقیت ہے۔

          دونوں محاضرے پیش ہوجانے کے بعد شرکاء نے موضوع سے متعلق سوالات کئے اور محاضرین نے بہت ہی خوش اسلوبی کے ساتھ ان کے جوابات دیئے۔

          اس کے بعد۱۴/ستمبرکودوسری نشست منعقد ہوئی جس میں دو عنوانات پر محاضرے پیش کیے گئے۔پہلامحاضرہ جناب مولاناڈاکٹر عتیق الرحمن صاحب (سابق لائبریری اینڈانفارمیشن جوائنٹ افسر وانچارج مخطوطات خدابخش لائبریری پٹنہ)نے ”  دنیائے اسلام کے اہم فکری ادارے“ کے عنوان پرپیش کیا، جس میں انہوں نے فرمایاکہ ہمارے بزرگوں کی قربانیوں کانتیجہ ہے کہ آج ہم اسلام پر باقی ہیں،مولانا نے تحریک اخوان المسلمین اوران کے کارنامے پرتفصیل سے روشنی ڈالی اورکہا: تیرہویں صدی میں حسن البناء شہید رحمہ اللہ نے جوکام کیاوہ ناقابل انکارہے،ایسے وقت میں جب عرب سقوط سلطنت عثمانیہ کے بعدہرطرح سے پریشان حال تھے،زبوں حالی کاشکارتھے،ہرطرف افراتفری مچی ہوئی تھی توایسے میں حسن البناء کوایک ایسی تنظیم کے قیام کی ضرورت محسوس ہوئی جونہ صرف مصربلکہ دیگرعرب ممالک میں بھی بیرون ممالک کے اثرونفوذمیں کمی کرسکے بلکہ وہاں کے مقامی لوگوں کوبھی انصاف دلاسکے،انہوں نے امت کوپیغام دیاکہ”قرآن ہمارا دستورہے اورسنت ہماراشعار ہے“،اس نعرہ پر پڑھے لکھے لوگوں کی ایک بڑی جماعت اکٹھاہوئی،اسلام اوررسول اللہ ﷺنے جوطریقہ بتایاہے اسے لے کر آگے بڑھنے کاعزم کیا،اللہ کے احکام کونافذکرنے،اسی کی عبادت کرنے،غیراللہ کی عبادت کوحرام کہنے کابھی نعرہ دیا،اخوان نے یہ بھی کہاکہ ہم چاہتے ہیں کہ انسانی سماج میں جتنے لوگ ہیں سب پڑھیں،اخوان نے پڑوسی کے حقوق اورغیرمسلم کے حقوق کی ادائیگی کے ساتھ سیاست میں بھی حصہ لیا،اس سے پورے عرب میں انقلاب برپاہوا۔اپنے ملک ہندوستان پر مولانانے کہاکہ ہندوستان ایساملک ہے جہاں ڈیڑھ ہزارسال سے مسلمان بس رہے ہیں،شیث علیہ السلام کی قبریہاں ہے،اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایاکہ مجھے ہندستان سے خوشبو آتی ہے،صوفیاء کرام اورعلماء کی محنتوں کانتیجہ ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں مسلمان یہاں بستے ہیں، مولانانے جمعیۃ علماء ہند،جماعت اسلامی اورتبلیغی جماعت کے طریقہ کاراوران کی خدمات پربھی روشنی ڈالی۔

          دوسرا محاضرہ جناب مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی صاحب (نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ وایڈیٹرہفت روزہ نقیب)نے ”مسلم ممالک میں اجتماعی تکافل کے تجربات“کے عنوان سے پیش فرمایا،جس میں تکافل کی شرعی حیثیت، اس کی ضرورت، طریقہ کار اوراس کے حرام وحلال کے پہلو کوداضح کیا،مفتی صاحب نے کہاکہ بھائی چارہ اورامداد باہمی اس کی بنیاد ہے، شریعت کی نظرمیں یہ عمل پسندیدہ ہے،یہ تعاون علی البر والتقوی ہے،اگریہ معاملہ سود،ربااورغبن سے پاک ہو توجائزہے۔

          اور پھر اخیر میں شریک فضلاء نے مختلف سوالات واستفسارات کئے،جن کے جوابت محاضر اساتذہ نے بحسن وخوبی دیئے۔

          ۱۵/ستمبر کو تیسرے دن کی نشست میں بھی دو عنوانات پر محاضرے پیش کیے گئے۔پہلامحاضرہ حضرت مولاناعبدالباسط ندوی (سکریٹری المعہدالعالی امارت شرعیہ پٹنہ)نے ”  مخلوط معاشرہ میں بقائے باہم کی بنیادیں“ کے عنوان پرپیش کیا، جس میں انہوں نے فرمایا کہ ہم ایسے ملک میں رہتے ہیں جس میں مختلف مذاہب کے ماننے والے ہیں، ان میں اکثریت ہندوؤں کی ہے، سب سے زیادہ واسطہ بھی انہیں سے پڑتاہے،ہمارے لئے سب سے زیادہ ضروری ہے کہ ہم ان کے سامنے اپنا اخلاق پیش کریں؛لیکن افسوس کہ جس قدر ہمارے اخلاق میں گراوٹ آئی، ہمارے رعب ودبدبہ، ہماری تکریم میں بھی گراوٹ آنے لگی،اگرہم چاہتے ہیں کہ ہم اپنی پُرانی حیثیت پر لوٹ آئیں توہمیں یہ کرناہوگاکہ ہم ان کے ساتھ ایسابرتاؤ کریں کہ وہ ہمارااحترام کرسکیں،ان کے ساتھ اس طرح پیش آئیں کہ وہ ہمارے کردار سے متاثرہوں،،ان کے دکھ درد میں شریک ہوں، پریشانیوں میں ان کی مدد کریں،ہمیں یہ ثابت کرناہوگا کہ ہم سے اچھا دوست کوئی نہیں ہے،حقیقت یہ ہے کہ ہم اپنے اخلاق کے ذریعہ جس طرح قلوب کوفتح کرسکتے ہیں کسی اورچیز سے نہیں،اس کی واضح مثال صلح حدیبیہ اور فتح مکہ کاواقعہ ہے،کفار پر اس کاا ثریہ پڑاکہ فتح مکہ تک مسلمانوں کی تعدادصرف دس ہزار تھی،صرف دوسال بعد مسلمانوں کے اچھے اخلاق کے نتیجہ میں یہ تعداد بڑھ کرلاکھ سے تجاوز کرگئی۔

          دوسرا محاضرہ جناب ڈاکٹرمولاناشاہجہاں قاسمی صاحب (لائبریری اینڈانفارمیشن اسسٹنٹ خدابخش لائبریری،پٹنہ) نے”مختلف مذاہب کے ساتھ ڈایلاگ“کے عنوان سے پیش فرمایا،مولانانے پہلے خدابخش لائبریری کی اہمیت وافادیت پر روشنی ڈالی جس میں کہاکہ اس وقت اس لائبریری میں دوسو مخطوطات ایسے ہیں جوپورے عالم میں صرف اورصرف اسی لائبریریری میں موجود ہیں،اسی طرح دنیا کے آٹھ نادر مخطوطات میں سے چارمخطوطہ خدابخش لائبریری میں موجود ہیں۔اس کے بعد مولانانے اپنے محاضرہ کے عنوان پر گفتگو کی، جس میں دعوت اوراس کی اہمیت پر روشنی ڈالی اورکہاکہ یہ امت خیر امت ہے، لہذا یہ بھلائی کاحکم کرتی ہے اوربرائی سے روکتی ہے،آگے فرمایاکہ دیگر مذاہب کے بارے میں براہ راست جاننا پھر ان سے مذاکرات کرنا،ساتھ ہی عدل وانصاف اورامن کاقیام اسی طرح ظلم کاخاتمہ ضروری ہے۔

          اس کے بعد آخری دن یعنی۱۶/ستمبرکوچوتھی نشست ہوئی،اس میں بھی دو عنوانات پر محاضرے پیش کیے گئے۔پہلامحاضرہ جناب ڈاکٹرمفتی امتیاز عالم قاسمی (استاذ المعہدالعالی امارت شرعیہ پٹنہ) نے ”  مسلم ممالک میں غیرسودی بنکاری کے تجربات“ کے عنوان پرپیش کیا، سب سے پہلے انہوں نے اسلامی معاشیات کے موضو ع پر ملک اوربیرون ملک میں جومقالات لکھے گئے یاکتابیں تالیف کی گئیں ان کاایک سرسری جائزہ پیش کیا، انہوں نے بتایاکہ عا م لوگوں میں اسلامی معاشیات کے تعلق سے بیداری پیداکرنے اورسود جیسی لعنت سے معیشت کوپاک رکھنے کے لیے ۲۰ویں صدی کی ابتداسے تقریباسات دہائیوں تک علماء نے لوگوں کی ذہن سازی کی اور اس کے لئے سیکڑوں کتابیں تالیف کیں،۱۹۵۰ کے بعد معیشت کواسلامی اقدار پراستوارکرنے کے لئے کوششیں شروع ہوئیں، سب سے پہلے ریاست حیدرآباد،اس کے بعد پاکستان، پھر مصر پھراُردُن، دبئی، سعودی عرب اورملیشیامیں اسلامی بینکنگ کارواج شروع ہوا،اس تعلق سے جہاں مصرمیں وقیع کوششیں ہوئیں وہیں شاہ فیصل مرحوم کے صاحبزادے پرنس الفیصل نے سعودی عرب میں اسلامک ڈولپمنٹ بینک آف جدہ کاقیام عمل میں لاکر اس میدان میں انقلاب برپاکردیا، پھراس کی شاخیں اسلامی دنیاکے مختلف ملکوں میں پھیل گئیں،انہوں نے بتایاکہ اس وقت عالم اسلام میں تقریباچارسو بینکس یاروایتی بینکوں میں اسلامی شاخیں اپناکام کررہی ہیں،جن کی مجموعی مالیت کئی کھرب ڈالرز ہیں اور سالانہ دس سے پندرہ فیصدکے تناسب سے بڑھ رہاہے، اس منظرنامے کودیکھتے ہوئے کہاجاسکتاہے کہ معاشیات کی دنیامیں اسلامی قوانین کابول بالاہونے والاہے اوراسلامی بینکنگ کاجال اس کی اپنی خوبیوں کے باعث دنیابھرمیں پھیلنے والاہے، یہ ایک خوشگواراورخوش آئند مستقبل کاغمازہے۔

          دوسرا محاضرہ جناب مولانانورالحق رحمانی صاحب (سینئر استاذالمعہدالعالی،پٹنہ) نے”اجتماعی امن کے قیام میں دینی اداروں کارول“ کے عنوان سے پیش کیا،انہوں نے کہا:روئے زمین پر،ملک وسماج میں اوردنیامیں امن قائم ہو،ایسی فضاقائم ہوکہ لوگ امن وامان میں رہیں،اس کی تعلیم علمائے کرام دینی اداروں میں دیتے ہیں،مولانانے فرمایا:علماء انبیاء کے وارث ہیں اوریہ وراثت علم کی ہے،انبیاء کرام نے جس طرح امن قائم فرمایااسی طرح علماء کرام امن کی تعلیم دیتے ہیں،امن کے قیام کے لئے ضروری ہے پاکیزہ اخلاق اور تزکیہ نفس، ان کی تعلیم دینی ادارے میں دی جاتی ہے،علماء امن قائم کرنے کے لئے ہروقت کوشاں رہتے ہیں،قرآن کریم میں امن کے قیام کے لئے قصاص اوردیگر احکامات نازل ہوئے کہ اگرکوئی کسی کاناحق قتل کرتاہے تواس کے بدلہ اسے قتل کیاجائے گا، اس سے امن قائم ہوگا،چور ہے تواس کی سزاہاتھ کاٹنامتعین ہے، اگر چور کاہاتھ کاٹ دیاجائے توامن قائم ہوگا،لوٹ ماراوردہشت گردی پر اس کی سزاہے، اسی طرح جوسماج میں بگاڑپیداکریں ان کی سزاہے،مدارس اچھے اورصالح انسان کوتیارکرتاہے،وہ ملک اورانسانیت کے سچے خادم تیارکرتے ہیں جومعاشرہ اورسماج میں امن کے قیام کے ضامن ہیں۔

          ان دونوں نشستوں میں بھی شرکاء کو سوالات کا موقع دیا گیا،جس میں انہوں نے موجودہ حالات کے تناظر میں مختلف سوالات کئے،اور مخلوط سماج کی وجہ سے پیدا ہونے والے بعض مسائل کا حل جاننا چاہا، بعض محاضرین نے بعض سوالوں کا بہت تفصیل سے جواب دیااور شرکاء کو اپنے جوابات سے مطمئن کرنے کی کوشش کی۔

          ان تمام نشستوں کی نظامت کے فرائض مولانا عبد الباسط ندوی (سکریٹری المعہد العالی،پٹنہ) نے انجام دئیے، اس ورک شاپ میں المعہدالعالی کے اساتذہ و طلبہ کے علاوہ امارت شرعیہ میں زیرتربیت طلبہ موجود رہے،اورپھر اختتامی نشست میں شریک علمائے کرام نے اپنے اپنے تاثرات بھی پیش کئے، اورانہیں بزرگوں کے ہاتھوں مشارکین کیمپ کو سندمشارکت سے بھی نوازاگیا۔

٭٭٭

VIEW DETAILS
<b>تطبیقات مقاصد الشریعۃ علی الواقع المعاصر</b>

تطبیقات مقاصد الشریعۃ علی الواقع المعاصرنئی دہلی, 19-20/12/2020

VIEW DETAILS
<b>حقوق المرأۃ بین الشریعۃ الاسلامیۃ والمواثیق الدولیۃ</b>

حقوق المرأۃ بین الشریعۃ الاسلامیۃ والمواثیق الدولیۃنئی دہلی, 28-29/11/2020

VIEW DETAILS
<b>ہندستان کے دینی مدارس کا تعلیمی نصاب۔جمودوتجدید کے درمیان</b>

ہندستان کے دینی مدارس کا تعلیمی نصاب۔جمودوتجدید کے درمیاننئی دہلی, 01-02/08/2018

VIEW DETAILS
<b>ہندستان کی معاصر دینی تعلیم۔علمی تجزیہ</b>

ہندستان کی معاصر دینی تعلیم۔علمی تجزیہنئی دہلی, 07/03/2018

VIEW DETAILS
<b>موجودہ مسائل اور تحقیق کی مہارت - الیکٹرانک و مطبوعہ مصادر و مراجع اور تطبیقی نمونے </b>

موجودہ مسائل اور تحقیق کی مہارت - الیکٹرانک و مطبوعہ مصادر و مراجع اور تطبیقی نمونے نئی دہلی , 26-30/11/2015

VIEW DETAILS
<b>تعلیم قرآن کے مناہج</b>

تعلیم قرآن کے مناہجحیدرآباد , 25-28/01/2014

VIEW DETAILS
<b>موجودہ مسائل اور تحقیق کی مہارت - الیکٹرانک و مطبوعہ مصادر و مراجع اور تطبیقی نمونے</b>

موجودہ مسائل اور تحقیق کی مہارت - الیکٹرانک و مطبوعہ مصادر و مراجع اور تطبیقی نمونےنئی دہلی , 31/08-04/09/201

VIEW DETAILS
<b>الفقه المعاصر</b>

الفقه المعاصردیوبند , 23/07/2011

VIEW DETAILS
<b>الفقه المقاصدي</b>

الفقه المقاصديلکھنؤ, 21-22/07/2011

VIEW DETAILS
<b>التنمیۃ الفکریۃ</b>

التنمیۃ الفکریۃاعظم گڑھ , 19-20/07/2011

VIEW DETAILS
<b>اسلامی اقتصادیات اور عصر حاضر میں اس کی علمی اور عملی تطبیق</b>

اسلامی اقتصادیات اور عصر حاضر میں اس کی علمی اور عملی تطبیقنئی دہلی, 18/02/2010

VIEW DETAILS
<b>فقہ کے اصول اور عصری مسائل پر اس کا اطلاق</b>

فقہ کے اصول اور عصری مسائل پر اس کا اطلاقحیدرآباد, 05-08/11/2009

VIEW DETAILS
<b>مقاصد شریعت</b>

مقاصد شریعتلکھنؤ, 28-30/06/2008

VIEW DETAILS
<b>مقاصد شریعت</b>

مقاصد شریعتدیوبند, 23-26/06/2008

VIEW DETAILS
<b>عربی زبان کی تعلیم</b>

عربی زبان کی تعلیمنئی دہلی, 19-23/05/2008

VIEW DETAILS
<b>مقاصد شریعت</b>

مقاصد شریعتحیدرآباد, 01/08/2007

VIEW DETAILS
<b>مقاصد شریعت</b>

مقاصد شریعت(شانتا پورم (کیرالہ, 30-31/07/2007

VIEW DETAILS
<b>مقاصد شریعت</b>

مقاصد شریعتعمر آباد , 29/07/2007

VIEW DETAILS
<b>مقاصد شریعت</b>

مقاصد شریعتاعظم گڑھ, 25-27/07/2007

VIEW DETAILS
<b>جدید طبی مسائل</b>

جدید طبی مسائلپٹنہ, 07-08/07/2007

VIEW DETAILS
<b>فقہ الأقلیات</b>

فقہ الأقلیاتکالی کٹ, 27-30/06/2007

VIEW DETAILS
<b>جدید طبی مسائل </b>

جدید طبی مسائل لکھنؤ , 15-16/05/2007

VIEW DETAILS
<b>جدید طبی مسائل</b>

جدید طبی مسائلحیدرآباد, 03-04/02/2007

VIEW DETAILS
<b>الاجتهاد المقاصدي ضرورته و ضوابطه</b>

الاجتهاد المقاصدي ضرورته و ضوابطهنئی دہلی, 08-12/12/2006

VIEW DETAILS
<b>عربی زبان کی تعلیم</b>

عربی زبان کی تعلیمنئی دہلی, 01-04/12/2005

VIEW DETAILS
<b>ممقاصد شریعت</b>

ممقاصد شریعتنئی دہلی, 19-24/11/2005


VIEW DETAILS
<b>مقاصد شریعت</b>

مقاصد شریعتنئی دہلی, 21-25/12/2003


VIEW DETAILS
<b>وقف اور اس کی سرمایہ کاری کی شکلیں</b>

وقف اور اس کی سرمایہ کاری کی شکلیںدیوبند, 12-13/04/2000


VIEW DETAILS
<b>دورہ تدریبیہ</b>

دورہ تدریبیہپسونڈہ، غازی آباد, 22-25-09-1993


VIEW DETAILS
<b>دورہ تدریبیہ</b>

دورہ تدریبیہپسونڈہ، غازی آباد, 01-03-09-1992


VIEW DETAILS