اسكالرقطر, 2021
اس اکیڈمی کے فیصلے
قدیم صالح اور جدید نافع کے جامع ہیں
الحمدللہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی المبعوث رحمۃ للعالمین
سیدنا محمد وعلی آلہ وصحبہ اجمعین، اما بعد!
نو پیش آمدہ مسائل پیچیدہ اور نازک ہوتے ہیں، ان کے سلسلہ میں
دیئے گئے فتوی کے اثرات خواہ منفی ہوں یا مثبت، صرف امت مسلمہ پر ہی نہیں بلکہ
پوری انسانیت پر پڑتے ہیں، لہٰذا ایسے موقع پر یہ نہ ہونا چاہئے کہ کسی قوم یا کسی
جماعت کی قسمت کو ایک فرد واحد کے فتوی سے باندھ دیا جائے جو کبھی صحیح فتوی دے
اور کبھی غلط ،بلکہ اس قسم کے استفتائات ومسائل کو علمی اداروں میں زیر بحث لانا
جائے؛ تاکہ وہ ان کی علت کی تحقیق کریں، اس کے اثرات کا جائزہ لیں اور اس کے اثرات
کو سمجھیں، پھر بحث و تحقیق کے بعد اس سلسلہ میں درست اور مکمل فتوی صادر کرسکیں،
خاص طور سے ہمارے اس دور میں یہ اس لئے بھی ضروری ہوگیا ہے کہ اصولی فقہ میں بیان
کی گئی شرائط ومقتضیات کے مطابق ایک دشوار اور مشکل امر بن گیاہے ۔
اسی تناظر میں انٹرنیشنل اور نیشنل فقہ اکیڈمیوں کے قیام کا تصور
سامنے آیا، چنانچہ سب سے پہلے جامع ازہر کے تحت ‘‘مجمع البحوث الاسلامیہ ’’ 1961ء
میں قائم ہوا، پھر رابطہ عالم اسلامی کے تحت 1977 میں المجمع الفقہی الاسلامی قائم
ہوا، پھر OIC (منظمۃ المؤتمر الاسلامی) کے تحت 1981 میں انٹرنیشنل اسلامک فقہ
اکیڈمی قائم کی گئی، اور پھر مختلف ملکوں خاص کر مسلم اقلیت کے علاقہ میں فقہ
اکیڈمیاں قائم ہوئیں، ایسی فقہ اکیڈمیوں میں سب سے اہم ‘‘اسلامک فقہ اکیڈمی-انڈیا
’’ہے جس کی بنیاد 1988میں رکھی گئی، جس نے کئی عظیم مقاصد کو بروئے کار لانے کو
اپنا ہدف بنایا؛ جن میں سے اہم یہ ہیں:
۱۔ موجودہ دور کی
معاشی، معاشرتی، سیاسی و صنعتی تبدیلیوں اور جدید ترقیات کے نتیجے میں پیدا ہونے
والی دشواریوں کا اسلامی خطوط کے مطابق قرآن و سنت، آثار صحابہ اور ائمہ مجتہدین
وسلف صالحین کی تشریحات کی روشنی میں حل تلاش کرنا۔
۲۔ جدید عہد میں پیدا
ہونے والے مسائل یا ایسے مسائل جو بدلتے ہوئے حالات میں بحث و تحقیق کے متقاضی ہیں،
کا فقہ اسلامی کے اصول کی روشنی اجتماعی تحقیق کے ذریعہ حل تلاش کرنا۔
اس باوقار اکیڈمی سے مسلسل رابطہ میں رہ کر، اس کے بعض سمیناروں
اور کانفرنسوں میں شرکت کرکے اور اس کے طے کردہ فیصلوں اور سفارشات اور فتاوی کو
پڑھنے کے بعد ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ یہ اکیڈمی فقہی مسائل کے میدان میں اور ہندوستانی مسلمانوں کودرپیش
مشکلات کو حل کرنے میں عظیم رول ادا کررہی ہے ۔ اس ملک میں مسلمانوں کی تعداد کا
اندازہ 20 کروڑ سے زیادہ کا ہے جو برصغیر ہند کے دور دراز علاقوں میں بکھرے ہوئے
ہیں۔
یہ بات بھی لائق توجہ ہے کہ فقہ اکیڈمی نے جو فقہی مسائل حل کر کے
پیش کئے ہیں، ا ن میں شرعی بنیادوں اور مقاصد شریعت کو واضح طریقے پر ملحوظ رکھا
گیا ہے ، بلاشبہ اکیڈمی کے یہ فیصلے قدیم صالح اور جدید نافع کے جامع ہیں ۔
اس فقہ اکیڈمی کی اہم خصوصیات میں سے مسلمانوں کو متحد کرنا اور
ملکی سطح پر امت کے علماء کو آپس میں جوڑنا بھی ہے ، چنانچہ مختلف مذاہب فقہ اور
مکاتب فکر کے علماء فقہ اکیڈمی کے سمیناروں میں جمع ہوتے ہیں اور پیش کردہ محاور و
موضوعات پر بحث ومناقشہ کرتے ہیں، اور مختلف مخصوص موضوعات سے متعلق ماہرین سے
مسائل کی تنقیح میں مدد بھی حاصل کرتے ہیں، اور یہ سب کچھ خالص علمی ماحول میں
ہوتا ہے جس میں اخوت ومحبت کی فضا چھائی رہتی ہے ۔
‘‘اپنے اکثر فیصلوں میں پہلے سےشائع شدہ دراسات وتحقیقات سے بھی
استفادہ کرتی ہے ، اورحتی المقدور نافع اور مفید کتابیں شائع کرتی ہے ۔
مختصر یہ کہ اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا انٹرنیشنل فقہ اکیڈمیوں کی
کاوشوں میں ایک مبارک اضافہ ہے اور فقہ اسلامی کی خدمت کی ایک عظیم کوشش اور
اجتماعی اجتہاد کے باب میں گرانقدر سرمایہ ہے جس سے نہ صرف یہ کہ ہندوستانی مسلمان
مستفید ہورہے ہیں بلکہ پورا عالم اسلام استفادہ کر رہا ہے ، اس لئے کہ اس نے فقہ
اسلامی کے نئے افق وا کئے ہیں، اجتماعی اجتہاد کی روح کو عام کیا ہے، اور مسلمانوں
کو درپیش مسائل و مشکلات کے حل کے لئے گہرا شعور پیدا کیا ہے۔
ڈاکٹر علی محی الدین
القرہ داغی
جنرل سکریٹری الاتحاد العالمی لعلماء المسلمین
نائب صدر یورپی کونسل برائے بحوث وافتاء
VIEW DETAILS